خطبۂ مسنونہ کے بعد:(اِقْرَأْ بِاسْمِ
رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الِاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَأْ وَرَبُّکَ
الأَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ)
واجب الاحترام علمائے کرام! مجھے آج تقریر کے
لئے موضوع یہ دیا گیا ہے کہ امام الہند حضرت اقدس شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی
قدس سرہ کی مشہور زمانہ، مایۂ ناز کتاب: حجۃ اﷲ البالغۃکے سلسلہ میں کچھ باتیں
عرض کروں۔
آپ سبھی حضرات جانتے ہیں کہ حجۃ اللہ
البالغہ ایک دقیق کتاب ہے، مگر دقیق ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پردہ نہیں
اٹھایا جاسکتا، اس کو حل نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کوسمجھنے کے
لئے محنت کرنی پڑے گی۔ عام کتابوں کے پڑھنے اور سمجھنے کے لئے جتنی محنت درکار ہوتی
ہے اتنی محنت اس کتاب کے لئے کافی نہیں۔ اس کے لئے محنت شاقہ برداشت کرنی پڑے گی،
جبھی کتاب سمجھ میں آئے گی۔
جیسے
ایک حدیث میں ہے:أَرْبَعُُ فِیْ أُمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجاھلِیَّةِ، لَنْ
یَّدَعَھُنَّ الناسُ، النِّیاحةُ، والطعنُ فی الأَحْساب، والْعَدْویٰ: أَجْرَبَ
بعیر فأجرب مأةَ بعیرٍ، مَنْ أَجْرَبَ البعیرَ الأولَّ؟ وَالأَنْوَاءُ:
مُطِرْنَا بِنَوْءِ کِذَا وَکَذَا( ترمذی شریف حدیث :٨٨٢)
ترجمہ: میری امت میں جاہلیت
کی چار چیزیں ایسی ہیں جنھیں لوگ ہرگز نہیں چھوڑ یں گے (١) نوحہ کرنا، مرنے والے
کا ماتم کرنا(٢) خاندان پر اعتراض کرنا (٣) یہ اعتقاد رکھنا کہ ایک کی بیماری
دوسرے کو لگتی ہے، لوگ کہتے ہیں: ایک اونٹ کو کھجلی ہوئی تو سب کو ہوگئی، ان سے
پوچھو: پہلے اونٹ کو کھجلی کہاں سے لگی (٤)نچھترّوں کا عقیدہ کہ فلاں نچھتر لگا تو
بارش ہوئی۔
اس
حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب امت ان باتوں کو نہیں چھوڑے گی تو یہ باتیں چلنے دی
جائیں، ان کے ازالے کے لئے محنت نہ کی جائے، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مصلحین
امت ان چار باتوں کو امت میں سے نکالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں، کسی بھی
طریقے سے ان چار باتوں کو امت میں سے ختم کریں، جیسے کپڑے پر داغ لگ جاتا ہے تو
دھوتے ہیں اور چائے گرجاتی ہے تو اس کو ہر ممکن طریقہ سے زائل کرتے ہیں،اسی طرح یہ
چار خرابیاں امت میں ایسی ہیں جو آسانی سے نکلنے والی نہیں، پس مصلحین امت کی ذمہ
داری ہے کہ انکے پیچھے خصوصی محنت کریں، اور کسی بھی طرح امت میں سے ان چار باتوں
کو نکالیں ۔
اسی
طرح میں عرض کرتا ہوں کہ حجۃ اللہ البالغہ دقیق کتاب ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ
اس کو یہ کہہ کر چھوڑ دو کہ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں! ارے بھائی! انسان نے لکھی
ہے، ہم ایسی کتاب لکھ نہیں سکتے تو سمجھ تو سکتے ہیں، مگر عام طور پر لوگوں کا حال
یہ ہے کہ سپر ڈال دیتے ہیں، ہمت ہار جاتے ہیں، کہتے ہیں: یہ کتاب بہت مشکل ہے، چیدہ
چیدہ حضرات ہی اس کا مطالعہ کرتے ہیں، عام طور پر لوگوں نے اس کو چھوڑ رکھا ہے،
پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ موقوف کردیا ہے، اس طرح اس کتاب کا جو عظیم فائدہ تھا اس سے
امت محروم ہوگئی، اس لئے میں نے قرآن کی جو پہلی وحی ہے اس کی پانچ آیتیں پڑھی ہیں،
پہلے یہ پانچ آیتیں سمجھ لی جائیں تو بات آگے بڑھائی جائے گی۔
پڑھنے کی اہمیت
قرآنِ کریم کی پہلی وحی میں دو اقرأ ہیں، ایک:
ناخواندہ کا اقرأ ہے اور ایک: خواندہ کا، ناخواندہ کے اقرأ کی آخری حد ہے، مگر
خواندہ کا اقرأ غیر محدود ہے، زندگی کے آخری سانس تک پڑھنا چاہئے۔ جب یہ دو اقرأ
جمع ہوں گے تبھی قلعہ فتح ہوگا، اگر کسی نے ایک اقرأ پر اکتفا کرلیا تو قلعہ فتح
نہیں ہوگا۔
پہلی
وحی کے مخاطب اول کون تھے؟ ناخواندہ لوگ! جو اپنے امی ہونے پر فخر کیا کرتے تھے،
ان سے پہلی بات جوکہی گئی ہے اس سے پڑھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ پھر پہلی وحی کا
جو پہلا کلمہ ہے اس سے پڑھنے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
پہلی وحی کا پہلا کلمہ: پڑھ!
اللہ
تعالیٰ کی پہلی وحی کا پہلا کلمہ ہے پڑھ! فرمایا :(اِقْرَأْ بِاسْمِ
رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ):
پڑھ اس پروردگار کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا، جس نے تجھے نیست سے ہست کیا، اس
کے نام کی مدد لے کر پڑھ وہ ضرور تجھے عالم بنادے گا۔ ذرا تو اپنی پیدائش کے مراحل
کو سوچ، تجھے اللہ نے سات مراحل سے گذار کر انسان بنایا ہے، اور یہ ساتوں مراحل بے
جان مادہ ہیں، ان سات بے جان مادوں سے گذار کر تجھے اشرف المخلوقات بنایا ، پس جو
ہستی بے
جان مادوں میں تبدیلیاں کرکے اشرف المخلوقات بناسکتی ہے وہ تجھ جاہل ناخواندہ کو
اگر تو اس کے نام کی مدد سے پڑھے تو مختلف مراحل سے گذار کر عالم نہیں بناسکتی؟
ضرور بناسکتی ہے، پس تو پڑھنے کے لئے کمر کس لے۔
تخلیقِ انسان کے
سات مراحل
تخلیقِ
انسان کے سات مراحل کا تذکرہ اٹھارہویں پارے کے پہلے رکوع میں آیا ہے۔ حضرت عبد
اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اُن آیات میں انسان کی تخلیق کے سات
مراحل کا بیان ہے، وہ سات مراحل کیا ہیں؟ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو مٹی
سے بنایا، پھر مٹی کاست( جوہر) نکالا، ایک ہی آیت میں دو مرحلوں کا ذکر ہے: (لَقَدْ
خَلَقْنَا الاِنْسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِیْنٍ): مٹی کے جوہر سے ہم نے انسان کو پیدا کیا۔
مٹی کا جوہر کیا ہے، ہم مٹی سے پیدا ہونے والی غذائیں کھاتے ہیں ، ان غذاؤں سے
ہمارے بدن میں خون بنتا ہے، یہ خون مٹی کا سلالہ اور جوہر ہے(ثُمَّ
جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ): پھر ہم نے اس جوہر کو نطفہ بنایا، یہ
تیسرا مرحلہ ہے، ہمارے بدن میں جو خون ہے اس سے خاص جوہر نکالا جاتا ہے، وہ مادہ
بنتا ہے، اس مادے کو اللہ تعالیٰ رحم مادر میں پہنچاتے ہیں اور حمل ٹھہر جاتا ہے،
حمل ٹھہرنے کے بعد بچہ دانی کا منھ بند ہوجاتا ہے، نہ باہر کی کوئی چیز اندر جاسکتی
ہے اور نہ اندر کی کوئی چیز باہر آسکتی ہے، یہی قرار مکین: اطمینان سے نطفہ ٹھہرنے
کی جگہ ہے۔ انسان کی تخلیق کے یہ تین مرحلے ہوئے، مٹی، مٹی کا جوہر اور مادہ۔
بچہ دانی میں جاکر وہ مادہ چالیس دن میں علقة (
خون بستہ) بن جاتا ہے۔ یہ چوتھا مرحلہ ہے جو بیچ کا مرحلہ ہے، جب سات مرحلے ہیں تو
بیچ میں کوئی نہ کوئی مرحلہ ضرور ہوگا، پھر اس کے بعدعلقة:مضغة ( بوٹی ) بنتا ہے پھر اس مضغہ میں ہڈیاں
پیدا ہوتی ہیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھتا ہے۔ یہ کل سات مرحلے ہوئے اور یہ ساتوں
مرحلے بے جان مادہ ہیں ان سات مراحل سے
گذار کر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی مخلوق بنادی جس سے بہتر اور اشرف مخلوق کوئی نہیں،
بڑی برکت والی ہے وہ ذات جو احسن الخالقین ہے۔
ان
سات مرحلوں میں سے بیچ کے مرحلہ کا ذکر فرماتے ہیں:(خَلَقَ الِنْسَانَ مِنْ
عَلَقٍ):
اللہ نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا، اس پردروگار کے نام کی مدد سے پڑھ وہ تجھ
جاہل ناخواندہ کو عالم بنادے گا۔ یہ پہلا اقرأ ہے جو ناخواندہ کا اقرأ ہے، وہ
الف باء سے شروع ہوتا ہے اور اس کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ آدمی میں استعداد پیدا
ہوجائے، جب تک استعداد پیدا نہ ہو پڑھتا رہے، دورہ پڑھ کر یہ نہ سمجھ لے کہ میں
فارغ ہوگیا۔
دوسرا اِقْرَأْ:
پھر
دوسرا اقرأ شروع ہوتا ہے اور غور کرو انداز بیان کیسے بدل رہا ہے، فرمایا: (اِقْرَأْ
وَرَبُّکَ الأَکْرَمُ):
پڑھ اورتیرا پروردگار بڑا کریم( سخی) ہے، اس کے یہاں فضل کی کمی نہیں، جتنا پڑھے
گا اتنا بڑھے گا۔ وہ تجھے بے حساب علم دے گا۔
یہ
خواندہ کا اقرأ ہے اور اس کی کم سے کم مقدار متعین ہے، مطالعہ کی صلاحیت پیدا
ہونے کے بعد یہ مرحلہ شروع ہوتا ہے، اور اس کی آخری حد کوئی نہیں۔ کائنات میں سب
سے زیادہ علم رکھنے والے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت نانوتوی قدس سرہ
نے رسالہ تحذیر الناس میں ایک حدیث لکھی ہے: عُلِّمْتُ علمَ الأولین
والآخرین:
مجھے اگلوں اور پچھلوں کا علم دیا گیا ہے، پوری کائنات کے پاس جتنا علم ہے اتنا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے، ایسی ہستی کو اللہ نے دعا سکھلائی ہے: (وَقُلْ رَّبِّ
زِدْنِیْ عِلْمًا): آپؐ دعا کیجئے کہ اے اللہ! میرے
علم میں اضافہ فرما، اتنا علم رکھنے والا بھی مامور ہے کہ وہ علم میں اضافہ کی دعا
کرے، معلوم ہوا کہ علم کی کوئی حد نہیں۔
اس کے
بعد فرماتے ہیں:(الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ) تیرا پروردگار وہ ہے جو قلم کے ذریعہ
علم سکھاتا ہے، پہلے استاذ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتا ہے پھر قلم کے ذریعہ یعنی
اگلوں نے جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھتا ہے، اس طرح (عَلَّمَ الِاِنْسَانَ
مَالَمْ یَعْلَمْ):
اللہ تعالیٰ انسان کو وہ علوم سکھاتے ہیں جو وہ نہیں جانتا یعنی جو اس نے مدرسہ کی
زندگی میں نہیں جانے وہ علوم اب ذاتی مطالعہ سے حاصل کرے گا۔
دور
تنزل
مگر
اب تنزل کا زمانہ آگیا ہے۔ طلبہ کے پڑھنے میں بھی اور اساتذہ کے پڑھنے میں بھی ،
طلبہ استعداد بننے سے پہلے فارغ ہوجاتے ہیں، اور اساتذہ عربی کتابوں کو ہاتھ نہیں
لگاتے، وہ سمجھتے ہیں کہ اردو شرحوں سے کام چل جائے گا، حالانکہ مصادر اصلیہ کا
مطالعہ کئے بغیر علم میں کمال پیدا نہیں ہوسکتا، اس لئے میں نے یہ آیات کریمہ پڑھیں
تاکہ ہم اپنی کمی دور کریں، اگر ہم نے اپنی کمی دور کرلی تو پھر ہمیں حجۃ اللہالبالغہ
کسی سے پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی ، یہ تو دوسرے اقرأ میں آتی ہے، ہر ایک کو یہ
کتاب خود پڑھنی ہے، مگر پڑھے گا وہی جو پہلے مرحلہ کے اقرأ سے کامیاب گذرا ہے،
اگر پہلے مرحلہ سے کامیاب نہیں گذرا تو نہ خود مطالعہ کرسکتا ہے نہ اس کو پڑھانے
سے کچھ حاصل ہوگا، میں نے یہ کتاب حضرت حکیم الاسلام رحمہ اللہ سے پڑھی ہے۔ حضرت
کثیر الاسفار تھے ،صرف چند ابواب ہم نے حضرت سے پڑھے ہیں مگر اس سے کتاب کا اندازہ
ہوگیا اور ہم نے طے کرلیا کہ اس کتاب کو حل کرکے چھوڑیں گے الحمد للہ وہ خواب
شرمندئہ تعبیر ہوگیا، کتاب حل کرلی، بلکہ شرح بھی لکھ دی۔
شاہ صاحب کی دور بینی
حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ فرمایا کرتے تھے
کہ حضرت شاہ صاحب نے مستقبل میں جو
محسوسات کا دور شروع ہونے والا تھا اس کو پہلے سے محسوس کرلیا تھا، حضرت شاہ صاحب
کا زمانہ عقلیت پسندی کا زمانہ تھا، مگر شاہ صاحب کو یہ احساس ہوگیا تھاکہ آگے
محسوسات کا دور آرہا ہے، سائنس کا دور آرہا ہے، ہر بات محسوس کرکے امت کے سامنے پیش
کرنی ہوگی۔ اب یہ دور شروع ہوچکا ہے ۔ حضرت شاہ صاحب نے حجۃ اللہ اسی دور کے لئے
لکھی ہے، اور اس میں ایسے افکار پیش کئے ہیں جن کی روشنی میں تمام مسائل شرعیہ کو
محسوس بناکر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے، یورپ اور امریکہ تو ترقی یافتہ
ممالک ہیں، یہاں بچے بھی ہر بات کی وجہ پوچھتے ہیں، ابھی اس نے ہوش کے ناخن بھی نہیں
لئے، مگر مسائل شرعیہ کے بارے میں پوچھتا ہے: ایسا کیوں ہے؟ یعنی مسئلہ کو محسوس
کرکے سمجھاؤ، تبھی وہ سمجھے گا ورنہ نہیں سمجھے گا۔
بیت اللہ میں جاکر
چھت نہ دیکھنے کی وجہ:
ٹورنٹو کی مسجد دارالسلام میں ایک باپ اپنے
بچہ کو لے کر آیا، بچے کی عمر مشکل سے دس گیارہ سال رہی ہوگی، اس کا باپ کہنے لگا:
اس بچہ کا ایک سوال ہے، آپ اس کا جواب دیں۔ میں نے پوچھا: پیارے ! تیرا کیا سوال
ہے؟ اس نے کہا: میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ جو شخص کعبہ شریف کے اندر جائے وہ چھت
کی طرف نہ دیکھے، ایسا کیوں ہے؟ چھت کی طرف کیوں نہیں دیکھ سکتا؟ میں نے اس سے
پوچھا: کعبہ شریف کے اندر کیوں جاتے ہیں؟ وہ بچہ تھا کیا جواب دیتا! اس لئے میں نے
اسے بتایا کہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہیں، عبادت کرنے کے لئے جاتے ہیں،
پھر میں نے اس سے پوچھا: پرانی عمارتیں( آثار قدیمہ) دیکھنے کے لئے اسکول کے بچے کیوں
جاتے ہیں؟ اس نے کہا: عمارت دیکھنے کے لئے جاتے ہیں کہ کیسی ہے؟ کس چیز سے بنی ہے؟
اب میں نے اس کو سمجھایا کہ کعبہ شریف تمام عمارتوں سے پرانی عمارت ہے، مگر اس کے
اندر جانا آثار قدیمہ دیکھنے کے لئے جانا نہیں ہے، اندر جانا عبادت کے لئے ہے،
اللہ جتنی توفیق دیں نماز پڑھنی چاہئے اور نماز پڑھ کر نکل آنا چاہئے،دیواریں دیکھنا،
چھت دیکھنا وغیرہ تو آثار ِ قدیمہ کی عمارتوں میں ہوتا ہے، اور دیوار دیکھنے کی
ممانعت اس لئے نہیں کی کہ اس پر تو ضرور ہی نظر پڑے گی، اس سے نظر بچانہیں سکتے،
اور چھت کو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ بچہ سمجھ گیا، اور مطمئن ہوکر چلاگیا، کیونکہ
میں نے محسوس بناکر بات پیش کی تھی، اس لئے وہ آسانی سے سمجھ گیا۔
اسی
طرح ایک نوجوان میرے پاس آیا، یہ بھی ٹورنٹو کا واقعہ ہے، اس نے سوال کیا: دو نمازیں:ظہر
اور عصر خاموش کیوں ہیں؟ اور تین نمازیں: مغرب، عشاء اور فجر جہری کیوں ہیں؟ یہ ایک
دقیق مسئلہ تھا، ہمارے طلبہ بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے، وہ تو کالج میں پڑھنے والا
تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: آپ کی شادی ہوئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے کہا: تم میاں
بیوی گپ کب کرتے ہو؟ دن میں یا رات میں؟ اس نے کہا: رات میں، دن میں تو ضروری باتیں
کرتے ہیں، میں نے کہا: آپ کے سوال کا یہی جواب ہے، دن کو اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ زیادہ
باتیں کرنے کو جی نہیں چاہتا، اسی لئے سنیما، ٹھیٹر اور گانے بجانے کے پروگرام رات
میں ہوتے ہیں کیونکہ رات کی فطرت میں اللہ نے انبساط رکھا ہے اوردن کی فطرت میں
انقباض اور جب طبیعت میں انقباض ہو تا ہے تو نہ سنانے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو،
اس لئے دن کی نماز یںخاموش ہیں، اور رات میں طبیعت میں انبساط ہوتا ہے سنانے کو بھی
جی چاہتا ہے اور سننے کو بھی، اس لئے رات کی نمازیں جہری ہیں۔
پھر
سوال پیدا ہوتا ہے کہ دن کی فطرت میں انقباض اور رات کی فطرت میں انبساط کیوں ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کو اللہ تعالیٰ نے معاش کا وقت بنایا ہے، اگر اس میں انبساط
رکھا جاتا تو آدمی ٹی وی دیکھتا رہتا ، گاتا بجاتا رہتا، بیوی سے گپ کرتا رہتا۔ نہ
جوب (کام) پر جاتا نہ شوپ( دوکان) پر، اس لئے اس میں انقباض رکھا تاکہ آدمی صبح
اٹھ کر نہا دھو کر نوکری پر پہنچ جائے یا دوکان کھول کر بیٹھ جائے، اور رات میں
کوئی دھندا نہیں ، وہ سونے کے لئے ہے، اس لئے رات میں انبساط رکھا۔ اور شریعت نے
انقباض وانبساط کا احکام میں لحاظ رکھا ، اسی لئے دن کی نمازوں کو سری اور رات کی
نمازوں کو جہری کردیا۔
اس
نے سوال کیا: پھر جمعہ اور عیدین میں جہری قرأت کیوں ہے؟ میں نے اس سے پوچھا: آپ
کے یہاں روز زفاف ہوتا ہے یا نہیں؟ شادی کے بعد رخصی دن میں عمل میں آتی ہے یا نہیں؟
اس نے کہا: دن میں بھی عمل میں آتی ہے (یورپ اور امریکہ میں دن میں بھی رخصتی ہوتی
ہے) میں نے کہا: جب رخصتی دن میں ہو اور روز ِ زفاف ہو تو پہلی ملاقات میں میاں بیوی
گپ کرتے ہیں یا نہیں؟ اس نے کہا: کرتے ہیں، میں نے کہا: یہی آپ کے سوال کا جواب
ہے، اس نے کہا: میں سمجھا نہیں۔ میں نے کہا: یہ موقع کی بات ہے اور خاص موقعوں کے
احکام الگ ہوتے ہیں، جمعہ کے دن اورعید کے دن آدمی نہاتا ہے، نئے یا دھلے ہوئے
کپڑے پہنتا ہے، خوشبو لگاتا ہے اور بڑے اجتماع میں پہنچتا ہے۔ ایسے موقعہ پر طبیعت
میں انبساط پیدا ہوجاتا ہے، اس لئے قرآن زور سے پڑھا جاتا ہے ۔
یہ
دقیق ترین مسئلہ تھا مگر میں نے اس کو محسوس بنادیا تو اس کی سمجھ میں آگیا، یہ سب
حجةاللہ کی برکت ہے، حجۃ اللہمیں یہ مسئلہ نہیں آیا، مگر پڑھتے پڑھاتے ایک مزاج بن
گیا، اب شریعت کا کوئی مسئلہ ہو میں اس کو محسوس بناکر پیش کرسکتا ہوں۔
غرض حکیم الاسلام نے فرمایا: شاہ صاحب کوڈیڑھ سو
سال پہلے یہ بات محسوس ہوگئی تھی کہ اب عقلیت کا دور ختم ہونے والا ہے اور سائنس
کا دور شروع ہونے والا ہے، جس میں معنویات کومحسوس بناکر پیش کرنا ہوگا، اس لئے
شاہ صاحب نے حجۃ اللہلکھی تاکہ دو سو سال کے بعد جب یہ دور شروع ہو، علماء امت اس
قابل ہوجائیں کہ وہ ہر مسئلہ کو محسوسات کے دائرہ میں لاکر افہام وتفہیم کرسکیں۔
مشکل کتاب کو سمجھنے کا طریقہ
اگر
آپ کوئی گہرا فن اور گہری کتاب سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ شاہ صاحب نے یہ
بتایا ہے کہ پہلے اس کے آلات جمع کریں، کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لئے جو ابتدائی
معلومات ضروری ہوتی ہیں ان کوجمع کریں، پھر تدریجاً آگے بڑھیں، ایک دم چھلانگ نہ
لگائیں، مثلاً: حجۃ اللہ میں ایک مضمون ہے، اس میں ہے کہ واقعات سلسلۂ مُعِدَّات ہیں،
اس کو سمجھنے کے لئے پہلے مُعِدّ کو سمجھنا پڑے گا، اس کے بغیر یہ بات نہیں سمجھ
سکتے، غور کریں کہ یہ کس فن کی بات ہے؟ یہ منطق کی اصطلاح ہے، منطق کی کتابوں میں
معدّ وہ چیز ہے جو موجود ہوکر فنا ہوجائے تب اگلا فرد وجود میں آتا ہے، جیسے میرا ایک
قدم وجود میں آیا، پھر دوسرا قدم کب وجود میں آئے گا؟ جب میں پچھلا پیر اٹھاکر آگے
رکھونگا تب دوسرا قدم وجود میں آئے گا،اب پچھلا قدم ختم ہوگیا، اور دوسرا قدم وجود
میں آگیا، اسی طرح اعداد (گنتی) بھی سلسلہ معدات ہیں ، چھ میں ایک ملائیں تب سات
بنیں گے، اب چھ ختم ہوگئے اور سات وجود میں آگئے، اسی طرح سات میں ایک ملایا تو
آٹھ بنا، اب سات ختم ہوگیا اور آٹھ وجود میں آگیا۔
غرض لفظ یا اصطلاح جس فن کی ہے اس فن میں جاکر
جب تک معنی متعین نہیں کریں گے پلّے کچھ نہیں پڑے گا، اس لئے شاہ صاحب نے فرمایا
کہ جب کوئی مشکل مضمون ہو یا مشکل کتاب ہو اور آپ اس کوسمجھنا چاہیں تو پہلے اس کے
آلات مہیا کریں، جو تمہیدی باتیں ضروری ہیں ان کو پہلے حاصل کریں، پھر تدریجاً آگے
بڑھیں۔ تدریج سے ذہن میں آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، او ر رفتہ رفتہ آدمی مجتہد بن
جاتا ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ رات میں سوتے نہیں تھے، سوچتے تھے اور جب کوئی دقیق
مسئلہ حل ہوتا تو صحن میں ناچتے تھے، اور خوش ہوکر فرماتے: بادشاہوں کے لڑکوں کو یہ
نعمت کہاں حاصل ! امین اور مامون کو یہ نعمت کہاں حاصل ! بہت خوش ہوتے۔
معلوم ہوا کہ سوچنا بھی ایک مطالعہ ہے، حضرت علامہ
محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمہ اللہ جب درس کے لئے آتے تو پہلے وضو کرتے، عمامہ
باندھتے، پھر تپائی پر رکھ کر ترمذی شریف کھولتے اور جو ابواب پڑھانے ہوتے ان کو ایک
نظر دیکھتے، پھر کتاب بند کرکے دس منٹ سوچتے، پھر پڑھانے کے لئے چل دیتے، یہ سر
جھکاکر بیٹھنا ہی ان کا مطالعہ تھا کیونکہ مواد تو سارا دماغ میں اکٹھا ہوتا ہی
تھا، صرف ترتیب دینے کی ضرورت تھی کہ مسئلہ کو کس انداز سے بیان کرنا ہے۔
شاہ
صاحب نے حجۃاللہ کے مقدمہ میں لکھا ہے:وکذلک کلُّ مسلم یَتَرَائٰ بادیَ الرأی: أن البحث عنہ مستحیل، ولااِ
حاطةَ بہ ممتنعة، ثم اِذا ارْتِیْضَ بِأَدَوَاتِہِ، وَتُدُرِّجَ فی فہم مقدِّماتہ
حصل التمکُّن فیہ، وتیسر تأسیس مبانیہ، وتفریعُ فروعہ، وزویہ: اسی طرح ہر فن سرسری
نظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے محبت کرنا ممکن ہے، اور اس کا احاطہ کرنا
محال ہے، مگر جب اس کے اوزاروں کے ذریعہ اس کو سدھالیا جاتا ہے، اور آہستہ آہستہ
اس کی تمہیدی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس میں جماؤ حاصل ہوجاتا ہے،
اور اس کی بنیادوں کو قائم کرنا اور اس کی جزئیات ومتعلقات کی تفریع کرنا آسان
ہوجاتا ہے( رحمۃاللہ ١:١٢١)
حجۃاللہ مشکل کیوں ہے؟
اور
حجۃ اللہ دو وجہ سے مشکل ہے، ایک: اس میں ایجاز( اختصار) ہے اور جب بھی کلام میں ایجاز
ہوتا ہے بات مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ دوم: مضامین بہت بلند ہیں، میں نے رحمة اللہ
کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ شاہ صاحب عرش پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ ان مضامین کو فرش
پر لانا مشکل ہوتا ہے، جب تک ان کی اصطلاحات حل نہ کی جائیں، ان کے انداز بیان سے
واقفیت پیدا نہ کی جائے مضمون سمجھ میں نہیں آتا۔
حجۃ اللہ کیسے سمجھیں؟
مگر
اب حجۃ اللہ کا سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے، آپ رحمۃ اللہ الواسعہ لے کر بیٹھیں اور
ایک مقدار متعین کریں کہ مجھے روزانہ ایک مسئلہ پڑھنا ہے یا تین صفحے پڑھنے ہیں،
اس سے زیادہ نہ پڑھیں، اس کو اپنی کاپی میں دوسرے لفظوں میں لکھیں، لمبے مضمون کو
مختصر کریں اور چوبیس گھنٹے اس مضمون کودماغ میں گھمائیں، ساتھیوں سے مذاکرہ کا
موقعہ ملے تو مذاکرہ کریں، ساتھی نہ ملیں تو چند تپائیاں سامنے رکھ کر تقریر کریں،
اس سے مضمون یاد بھی ہوگا اور ذہن میں بھی بیٹھے گا۔
البتہ حجۃ اللہ کی دوقسمیں ہیں: قسم اول میں سات
مباحث ہیں اور ہر مبحث میں متعدد ابواب ہیں، اگر کوئی ان سات مباحث پر قابو پالے
تو شریعت کا ہر مسئلہ حل کرسکتا ہے، ہر مسئلہ کا راز اور حکمت پاسکتا ہے۔ حجۃ اللہمیں
اُس مسئلہ کا ہونا ضروری نہیں،اور قسم ثانی میں حضرت نے مشکوٰة شریف کو سامنے رکھ
کر اسی ترتیب سے حدیثیں لکھی ہیں اور حدیثوں میں جو حکم آیا ہے اس کا راز بیان کیا
ہے اس کی حکمت بیان کی ہے۔
قسم ثانی کا سمجھنا آسان ہے، کہیں کہیں کوئی بات
مشکل آجاتی ہے، ورنہ وہ بہت آسان ہے، ہر پڑھا لکھا آدمی اس کو سمجھ سکتا ہے، پس جو
حضرات حجۃ اللہکا مطالعہ کریں وہ پہلے قسم ثانی پڑھیں، جب اس سے فارغ ہوں تو قسم
اول شروع کریں، رحمة اللہ میں میں نے اس کی ایک مثال دی ہے۔ ایک ماہر باورچی ہے،
اس کے پاس پلاؤ پکانے کا ایک فارمولہ ہے، مگر مجمع میں باورچی اس فارمولہ کو بتائے
تو ضروری نہیں کہ ہر آدمی اس فارمولہ کے مطابق پلاؤ پکالے، کوئی کامیاب ہوسکتا ہے
اور کوئی ناکام۔ لیکن اگر وہ باروچی پلاؤ پکاکر سب کے سامنے پلیٹوں میں کھاناسجادے
تو پھر کیا دیر ہے؟ ہاتھ بڑھائے اور کھانا شروع کرے۔ پہلی قسم میں حضرت نے اصول
وضوابط بیان کئے ہیں اور اصول وضوابط ہمیشہ نظری ہوتے ہیں اور نظری چیزوں کا سمجھنا دشوار ہوتا ہے اس لئے قسم اول کا سمجھنا دشوار
ہے، اور قسم ثانی میں حدیثوں کو سامنے رکھ کر ان میں جو احکام آئے ہیں ان کے اسرار
وحکم بیان کئے ہیں، یعنی اصول وضوابط کے مطابق حدیث میں مذکور احکام کے اسرار وحکم
بیان کرکے کھانا سامنے کردیا ہے، اب کیا کمی ہے آگے بڑھو اور خوانِ نعمت سے فائدہ
اٹھاؤ۔
حجۃ اللہ کے ہم پلہ کوئی کتاب نہیں
حجۃ
اللہ کے انداز پر اور بھی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن حجۃ اللہ کے ہم پلہ کوئی کتاب
نہیں، حضرت تھانوی کی المصالح العقلیۃ فی
الأحکام النقلیۃہے، اس میں صرف احکام کی حکمتیں ہیں کہ یہ حکم کیوں ہے؟ وضوء میں
چار فرض کیوں ہیں؟ اطراف کیوں دھوئے جاتے ہیں؟ لیکن اس میں کوئی ایسا فارمولہ نہیں
ہے کہ وہ ہم جان لیں تو خود شریعت کے احکام کی حکمت نکال لیں، اور حجۃ اللہ میں
آدھی کتاب میں ایسے ہی فارمولے بیان کئے ہیں ۔ علامہ حسین جسر رحمہ اللہ نے بھی
عقائد پر ایک کتاب لکھی ہے، انھوں نے بھی احکام کی علتیں بیان کی ہیں، مگر فارمولہ
بیان نہیں کیا، الغرض جو بھی کتاب اس باب میں لکھی گئی ہے وہ حجۃ اللہ کے ہم پلہ
نہیں، حجۃ اللہ پہلی اور آخری کتاب ہے، اس میں جہاں احکام کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں
وہیں اصول اور ضابطے بھی بیان کئے گئے ہیں۔
نظام الاوقات بنانا ضروری ہے
مگرہمارے فضلاء پر ایسا احساس کمتری چھایا ہوا
ہے کہ وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے، بھائیو! کب تک سننے کے محتاج رہوگے، پڑھنا شروع
کرو، دس سال تک کانوں سے علم حاصل کیا اب آنکھوں کو استعمال کرو، اور اس کے ذریعہ
علم حاصل کرو، کہتے ہیں: اجی وقت نہیں، فرصت نہیں، بھائی! جب آپ چاہیں گے وقت بھی
نکل آئے گا اور فرصت بھی مل جائے گی۔ اپنا حساب کرو، ہم کم از کم چار گھنٹے فضولیات
میں ضائع کرتے ہیں، اِدھر کھڑے ہیں ،اُدھرباتیں کررہے ہیں، خواہ مخواہ مس کال
ماررہے ہیں، پیسہ بھی برباد کررہے ہیں اور وقت بھی ضائع کررہے ہیں، ہمیں چاہئے کہ
وقت کی حفاظت کریں، وقت کو بچاکر پڑھنے کا نظام بنائیں۔ نظام الاوقات بنائے بغیر
کچھ نہیں ہوگا، طے کرلیں کہ فلاں وقت یہ کرنا ہے اور فلاں وقت وہ، رات کو دس بجے
سے بارہ بجے تک ضرور پڑھنا ہے، اور یہ پڑھنا ہے ، اور اس طرح پڑھنا ہے، کچھ بھی
ہوجائے پڑھنا ہے۔ حضرت تھانوی قدس سرہ کا واقعہ ہے: ایک مرتبہ ان کے استاذ حضرت
مولانا خلیل احمد صاحب تھانہ بھون آئے، حضرت تھانوی بہت خوش ہوئے اور زور کی دعوت
کی، کھانے کے بعد مجلس میں بیٹھے۔ حضرت تھانوی نے عرض کیا: حضرت ! اس وقت میرا بیان
القرآن لکھنے کا معمول ہے اگر اجازت ہو تو میں لکھنے کے لئے چلا جاؤں؟ حضرت نے
فرمایا: بالکل جاؤ اور لکھو! حضرت تھانوی چلے گئے، اور دس منٹ کے بعد آگئے، حضرت
نے پوچھا: کیوں آگئے؟ کہنے لگے: حضرت! میں نے اپنا معمول پورا کرلیا، اور چونکہ آپ
تشریف فرما ہیں اس لئے لکھنے کو جی نہیں چاہتا، دس منٹ لکھا اور معمول پورا کرلیا،
اس طرح آدمی نظام الاوقات بنائے تو کامیابی حاصل ہوتی ہے، یہ نہیں کہ کسی دن موقع
ملا تو پڑھ لیا اور سات دن ناغہ کردیا۔ کیونکہ آٹھویں دن پڑھنے کو جی نہیں چاہے
گا، اس لئے ایک وقت مقرر کرکے مطالعہ میں لگ جاؤ اور پابندی سے لگے رہو تو استعداد
بڑھے گی، دماغ میں معلومات جمع ہونگی، اور رفتہ رفتہ دین کا علم پکا ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حجۃاللہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
وآخر دعوانا أن الحمدﷲ رب العالمین۔