Saturday, August 19, 2017

ٹیلی گرام اردو چینل

زیر نظر لنک ٹیلی گرام کے ایک اردو چینل کا لنک ہے۔ اس چینل کی وساطت سے شارح حجۃ اللہ البالغہ,فقیہ النفس حضرت مولانا و مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتھم العالیہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند کے افادات شیئر کئے جاتے ہیں۔ چینل میں شامل ہونے کیلیے یہاں کلک کیجیے

ٹیلی گرام پر اردو کے مفید چینلز و گروپس کیلیے یہاں کلک کیجیے

Wednesday, March 6, 2013

تعارف از مفتی سعید احمد پالنپوری


مفتی سعید احمد پالن پوری دامت بر کاتہم شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی ولادت 1362ھ مطابق 1942ء میں ہوئی ،آپ جناب یو سف صاحب کے فر زند اور مو ضع ‘‘ کالیٹرہ ‘‘ضلع بناس کانٹھا‘‘ ( شمالی گجرات) کے رہنے والے ہیں آپ کے والدین نے آپ کا نام ‘‘احمد‘‘ رکھا تھا ، لیکن جب آپ نے مدرسہ مظا ہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا تو اپنے نام کے شروع میں ‘‘سعید ‘‘ کا اضافہ کر دیا ، اس طرح آپ کا پورا نام ‘‘سعید احمد‘‘ ہو گیا ،اس وقت دیوبند میں اپنے ذاتی مکان میں اقامت پذیر ہیں ۔
آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے وطن گجرات ہی میں ہوئی ،آپ کی ‘‘بسم اللہ‘‘ آپ کے والد ماجد نے کرائی اور ناظرہ ودینیات وغیرہ کی تعلیم آپ نے وطن کے مکتب میں حاصل کی ، پھر آپ دارالعلوم ‘‘چھاپی‘‘ تشریف لے گئے اور وہاں فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ، دارالعلوم چھاپی میں آپ کا قیام چھ ماہ رہا ، پھر آپ مولانا نذیر احمد پالن پوری کے مدرسہ میں داخل ہوئے اور وہاں عربی درجہ کی شرح جامی تک تعلیم حاصل کی ، وہاں محمد اکبر پالن پوری اور مولاناہاشم بخاری آپ کے خاص استاد تھے ۔
1377ھ میں آپ نے مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا ، نحو اور منطق وفلسفہ کی بیشتر کتابیں آپ نے وہیں پڑھیں ، 1380ھ مطابق 1960ء میں آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اورحدیث وتفسیر اور فقہ کے علاوہ دیگر کئی فنون کی کتابیں آپ نے یہیں پڑھیں ، 1382ھ مطابق 1962ء میں دورہ حدیث شریف سے فارغ ہو ئے اور سالانہ امتحان میں امتیازی نمبرات حاصل کئے ، پھر اگلے تعلیمی سال ( یکم ذیقعدہ 1382ھ ) میں شعبہ افتاء میں داخلہ ہوا اور فتاویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی ۔
تکمیل افتاء کے بعد 1384 ح میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر ( سورت) میں علیا کے مدرس مقرر ہوئے ، یہاں تقریبا دس سال تدریسی خدمات انجام دی ، پھر دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی تجویز پر 1393ھ میں دارالعلوم دیوبند کے مسند درس وتدریس کے لئے آپ کا انتخاب عمل میں آیا اور تا ہنوز دارالعلوم میں خدمت انجام دے رہے ہیں ، دارالعلوم میں مختلف فنون کی کتابیں پڑھانے کے ساتھ سالہا سال سے ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف کے اسباق آپ سے متعلق ہیں ، آپ کے اسباق بے حد مقبول ، مرتب اور معلومات سے بھر پور ہو تے ہیں طلبہ میں عموما آپ کی تقریر نوٹ کر لینے کا رجحان پا یا جاتا ہے اور آپ کی تقریر میں اتنا ٹہراؤاور اتنی شفافیت ہو تی ہے کہ لفظ بلفظ اسے نوٹ کر لینے میں کسی طرح کی دشواری پیش نہیں آتی ، دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین حضرت مولانا نصیر آحمد خانصاحب رحمۃ اللہ علیہ کی علالت کے بعد (1429ھ مطابق 2008 )سے بخاری شریف جلد اول کا درس بھی آپ سے متعلق کر دیا گیا اس وقت آپ دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین ہیں ، اوقات کی پابندی اور کاموں میں انہماک آپ کے اہم قابل تقلید اوصاف ہیں ۔
آپ کا مزاج شروع ہی سے فقہی رہا ہے اور فقہ وفتاویٰ میں امامت کا درجہ رکھنے والے دارالعلوم دیوبند جیسے ادارہ سے تکمیل افتاء کے بعد آپ کے فقہی ذوق میں اور بھی چار چاند لگ گئے ، ترمذی شریف کے درس کے دوران بڑی خوبی اور اعتماد کے ساتھ فقہی با ریکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، فقہی سمیناروں میں آپ کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی اور آپ کے مقالات کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ فتاویٰ‘‘ امداد الفتاویٰ‘‘ پر آپ نے گرانقدر حاشیہ بھی لکھا ہے ، نہز آپ کی فقہی مہارت اور رائے قائم کرنے میں حد درجہ حزم واحتیاط ہی کی وجہ سے دارالافتاء دارالعلوم کے خصوصی بنچ میں آپ کا نام نمایاں طور پر شامل ہے ۔
آپ نے درس وتدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف میں بھی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں ،آپ کی بہت سی کتابیں دارالعلوم سیمت مختلف دینی مدارس میں شامل نصاب ہیں ۔ آپ کی چند کتابوں کی فہرست یہان ملاحظہ کی جاسکتی ہ

البانی صاحب کے تعقبات میں لکھی گئیں چند کتابیں


البانی صاحب کے تعقبات میں لکھی گئ کتابوں میں سے ستاون کتابوں کے نام اور مختصر تعارف

أسماء بعض الكتب وبعض المؤلفين ممن رد على الألباني أو تعقبه ..
فمنها على سبيل الذكر لا الحصر :

(1) ”إباحة التحلي بالذهب المحلق للنساء والردّ على الألباني في تحريمه”؛ لفضيلة الشيخ: إسماعيل بن محمد الأنصاري
(2) ”إبطال التصحيح الواهن لحديث العاجن”؛ للسيد حسن بن علي السقاف.
(3) ”إتمام الحاجة إلى: (صحيح: ”سنن ابن ماجه”)”؛ لعبد الله بن صالح العبيلان.
تعقّب في هذا الكتاب الأحاديث التي عزاها الألباني في: ”صحيح: (سنن ابن ماجه)” لغير ”الصحيحين”، وهي فيهما، أو في أحدهما.
(4) ”الأحاديثُ الضعيفة في: (سلسلة الأحاديث الصحيحة)”؛ لرمضان محمود عيسى.
وهو خاصٌ بنقد المجلد (الأوّل) من: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة”.
وقد أشار إليه الشيخ في مقدمة المجلد (الأوّل) من: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة” (ص 4) [ط. الجديدة].
(5) ”احتجاج الخائب بعبارة من ادَّعى الإجماع فهو كاذب”؛ للحسن بن علي السقاف.
(6) ”الأدلةُ الجليّة لسنة الجمعة القبلية”؛ للحسن بن علي السقاف.
(7) ”إرغامُ المبتدع الغبي بجواز التَّوسّل بالنبي في الردِّ على الألباني الوبي”؛ لعبد الله بن الصديق الغماري.
وهو الآتي باسم: ”جزءٌ فيه الرد على الألباني...”، وقد اطَّلعت على صورة لنسخةِ المصنف، فوجدت بخطه: ”جزء فيه الرد على الألباني...”، وعلى إحدى طبعات: ”إرغام المبتدع”، حاشيةٌ كتبها: الحسن بن علي السقاف .
(8) ”الإعلامُ في إيضاح ما خفي على الإمام” لفهد بن عبد الله السُّنيد
ويقصد بالإمام : الألباني والكتاب تعقبات حديثية على الألباني، مع نقولات في الرِّجال لعبد العزيز بن باز
(9) ”إعلام المبيح الخائض بتحريم القرآن على الجنب والحائض”؛ للسيد حسن ابن علي السقاف.
(10) ”الألباني شذوذه وأخطاؤه”؛ لأَرْشَدَ السلفيّ.
كذا كُتِبَ على الغلاف في الطبعة (الأولى) للكتاب، وهو اسم مستعار، والمؤلف الحقيقي لهذا الكتاب (كما صرَّحوا به في الطبعات اللاحقة) الشيخ: حبيب الرحمن الأعظمي، والكتاب في أربعة أجزاء، جُمِعَت بعد ذلك في كتابٍ واحدٍ.
(11) ”إقامةُ البرهان على ضعف حديث: استعينوا على إنجاح الحوائج بالكتمان. وفيه الرد على العلامة الشيخ محمد ناصر الدين الألباني”؛ لخالد بن أحمد المؤذن.
وقد أشار إليه في مقدمة المجلد (الثاني) من: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة” (ص 9 ـ 10).
(12) ”الانتصارُ لأهل التوحيد والرد على من جادل عن الطواغيت ملاحظات وردود على شريط: (الكفر كفران) للشيخ محمد ناصر الدين الألباني”؛ لعبد المنعم مصطفى حليمة (أبي بصير).
(13) ”الانتصارُ لشيخ الإسلام محمد بن عبد الوهاب بالردِّ على مجانبة الألباني فيه الصواب”؛ لفضيلة الشيخ: إسماعيل بن محمد الأنصاري
(14) ”أنوارُ المصابيح على ظلمات الألباني في صلاة التراويح”؛ لبدر الدين حسن دياب الدمشقي.
(15) ”أينَ يضع المصلي يده في الصلاة بعد الرفع من الركوع”؛ لعبد العزيز بن عبد الله بن باز طُبِعَت هذه الرِّسالة ضمن مجموع: ”ثلاث رسائل في الصلاة”، للشيخ نفسه.
(16) ”بذلُ الجهد بتضعيف حديثي السوق والزهد”؛ لعادل بن عبد الله السعيدان.
(17) ”البشارةُ والإتحاف فيما بين ابن تيمية والألباني في العقيدة من الاختلاف”؛ للسيد حسن بن علي السقاف.
(18) ”بيانُ أوهام الألباني في تحقيقه لكتاب فضل الصلاة على النبي -صلى الله عليه وسلم- للقاضي إسماعيل بن إسحاق الأزدي”؛ لأسعد سالم تَيِّم.
(19) ”بيانُ نكث الناكث المتعدي بتضعيف الحارث”؛ لعبد العزيز بن الصديق الغماري.
(20) ”تحذير العبد الأوّاه من تحريك الإصبع في الصلاة”؛ للسيد حسن بن علي السقاف.
(21) ”تخريجُ حديث أوسٍ الثقفي في فضل الجمعة وبيان عِلّتِه”؛ لأسعد سالم تَيِّم.
وهو ردٌّ على تصحيح الألباني للحديث.
(22) ”تصحيحُ حديث صلاة التراويح عشرين ركعة والردّ على الألباني في تضعيفه”؛ إسماعيل بن محمد الأنصاري
(23) ”التعريفُ بأوهام من قسم (السنن) إلى صحيح وضعيف”؛ لمحمود سعيد ممدوح.
وهو كتاب كبير بلغ قسم العبادات منه (ستة) مجلدات كبيرة .
(24) ”التعقّبُ الحثيث على من طعن فيما صحَّ من الحديث”؛ للشيخ عبد الله الهَرَري الحَبَشيّ .
(25) ”تعقباتٌ على: (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة) للألباني”؛ لإسماعيل بن محمد الأنصاري
(26) ”التعقباتُ المليحة على: (السلسلة الصحيحة)”؛ للشيخ: عبد الله بن صالح العبيلان.
تعقّب في هذا الكتاب الأحاديث التي عزاها الألباني في: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة” لغير ”الصحيحين”، وهي فيهما، أو في أحدهما.
(27) ”التكميلُ لما فاتَ تخريجه من: (إرواء الغليل)”؛ للدكتور: صالح بن عبد العزيز آل الشيخ
(28) ”تناقضاتُ الألباني الواضحات فيما وقع له في تصحيح الأحاديث وتضعيفها من أخطاء وغلطات”؛ للسيد حسن بن علي السقاف.
(29) ”تنبيهُ القارئ [على] تقوية ما ضعفه الألباني”.
(30) ”تنبيهُ القارئ لتضعيف ما قواه الألباني”؛ كلاهما لعبد الله بن محمد الدويش
(31) ”تنبيهُ المسلم إلى تعدي الألباني على: (صحيح مسلم)”؛ لمحمود سعيد ممدوح.
(32) ”التنبيهاتُ على رسالة الألباني في الصلاة”؛ لحمود بن عبد الله التويجري
(33) ”تنقيح الفهوم العالية بما ثبتَ وما لمْ يثبتْ من حديث الجارية”؛ للحسن بن علي السقاف.
(34) ”جزءٌ في كيفية النهوض في الصلاة وضعف حديث العجن”؛ لبكر بن عبد الله أبو زيد
(35) ”جزءٌ فيه الردّ على الألباني وبيان بعض تدليسه وخيانته”؛ لعبد الله بن الصديق الغماري.
وقد سبق باسم: ”إرغام المبتدع الغبي”.
(36) ”حكم تارك الصلاة”؛ لعبد المنعم مصطفى حليمة (أبي بصير).
(37) ”حول مسألة تارك الصلاة”؛ لممدوح جابر عبد السلام.
كتب على غلافه:
(الرَّد العِلمي على كتاب: ”فتحٌ من العزيز الغفَّار بإثبات أنَّ تارك الصلاة ليس من الكفَّار”. ورسالة الشيخ ناصر الدين الألباني: ”حُكم تارِكِ الصَّلاةِ”).
(38) ”خطبةُ الحاجة ليست سنة في مستهل الكتب والمؤلفات”؛ للشيخ عبدالفتاح أبو غدة رَحِمَهُ اللهُ.
(39) ”رَفْعُ الْجُنَّةِ أمام: (جلباب المرأة المسلمة في الكتاب والسنة)”؛ لعبدالقادر بن حبيب الله السندي رَحِمَهُ اللهُ.
وهو ردٌ موسع على كتاب: ”جلباب المرأة المسلمة” للشيخ الألباني.
وقد التزم مؤلفه بالأدب مع الألباني رَحِمَهُ اللهُ، على عكس صنيع الألباني مع السندي، إذ تَعَرَّض له في كتابه: ”الجلباب”، و ”الرد المفحم”، وشنَّع عليه في الردِّ؛ كعادته مع مخالفيه .
(40) ”صحيح صفة صلاة النبي صلى الله عليه وآله وسلَّم”؛ للحسن بن علي السقاف
عارض به كتاب الألباني: ”صفةُ صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- من التكبير إلى التسليم كأنك تراها”، مع التعرض لآراء الألباني في كتابه السابق.
(41) ”الشماطيط فيما يهذي به الألباني في مقدماته من تخبطات وتخليط”؛ للحسن بن علي السقاف.
وهي ”رسالة” ردَّ بها على ما جاء في مقدمة الجزء (الأوّل) من: ”سلسلة الأحاديث الضعيفة”.
(42) ”الشهاب الحارق المنقض على إيقاف المتناقض المارق”؛ للحسن بن علي السقاف.
(43) ”عددُ صلاة التراويح”؛ للدكتور: إبراهيم الصبيحي.
(44) ”قاموس شتائم الألباني وألفاظه المنكرة في حق علماء الأمة وفضلائها وغيرهم”؛ للحسن بن علي السقاف.
(45) ”القول المبتوت في صحة صلاة الصبح بالقنوت”؛ للحسن بن علي السقاف.
(46) ”القولُ المقنع في الرد على الألباني المبتدع”؛ لعبد الله بن الصديق الغماري.
وهو ردٌّ حديثي وفقهي، لبعض ما أورده الألباني (تعليقاً) في تحقيقه لـ: ”بداية السُّول في تفضيل الرسول -صلى الله عليه وسلم-”؛ للعز بن عبد السلام رحمهُ الله.
(47) ”كلماتٌ في كشف أباطيل وافتراءات”؛ للشيخ عبد الفتاح أبو غدة رَحِمَهُ اللهُ.
(48) اللجيف الذعاف للمتلاعب بأحكام الاعتكاف”؛ للحسن بن علي السقاف.
رسالة رد بها على الألباني في قوله بـ: أنه لا يجوز الاعتكاف إلا في المساجد الثلاثة.
(49) ”المؤنقُ في إباحة تحلي النساء بالذهب المحلق وغير المحلق”؛ للشيخ: أبي عبد الله مصطفى العدوي.
(50) ”ملحوظاتٌ على كتاب: (الصلاة) للعلامة محمد ناصر الدين الألباني” لعبد الله بن مانع العتيبي
(51) ”نصرةُ: (التعقب الحثيث) على من طعن فيما صح من الحديث”؛ لعبد الله الحَبَشيّ الهَرَري.
(52) ”نظراتٌ في: (السلسلة الصحيحة) للشيخ محمد ناصر الدين الألباني”؛ للشيخ: أبي عبد الله مصطفى العدوي، وخالد بن أحمد المؤذن.
وهو دراسةٌ لـ (المائة) حديث الأولى من: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة”
(53) ”نقدُ تعليقات الألباني على شرح الطحاوية”؛ لإسماعيل ابن محمد الأنصاري.
(54) ”وصولُ التهاني في إثبات سُنِّيَّة السُّبْحة والرَّدِّ على الألباني”؛ لمحمود سعيد ممدوح.
(55) ”وهم سيء البخت الذي حرَّم صيام السبت”؛ للحسن بن علي السقاف.
(56) ”ويلك آمن، تفنيد بعض أباطيل ناصر [الدين] الألباني”؛ لأحمد عبد الغفور عطار.
57 "تنبيه المسلم إلى تعدي الألباني على صحيح مسلم" لمحمود سعيد ممدوح وبعض الردود عليه.
والله أعلم.

Wednesday, January 30, 2013

تعارف "نقوش حيات"

استاذ الاساتذہ، صدر المدرسین، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃ کاملۃ ونور اللہ مرقدہ ان خوش بخت، منتخب اور برگزیدہ شخصیات میں سے تھے جنکو اللہ تعالٰی نے طویل خدمت دین کا موقعہ نصیب فرمایا، یہی وجہ ہے کہ آج کے بڑے بڑے اساتذہ بھی انکے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے والوں میں سے ہیں ـ پچھلے دنوں چمنستان دیوبند میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا آیا اور حضرت مولانا قاری شفیق الرحمن کے لائق و فائق صاحب زادے و خلف الصدق مولانا خلیل الرحمن صاحب زید مجدہ نے حضرت رحمہ اللہ کی مکمل، مفصل اور دس ابواب پہ مشتمل ایک سوانح مرتب کرکے حضرت رحمہ اللہ کی خدمت میں جماعت دیوبند کے ہر اس فرد کی طرف سے نذرانۂ عقیدت پیش کیا جس نے حضرت رحمہ اللہ کے علمی سمندر سے اپنی تشنہ لبی دور کی ہے، مؤلف زید مجدہ نے حضرت والا تبار رحمہ اللہ کی زندگی کے کئ پہلووں اور گوشوؤں کو بڑی محنت اور عرق ریزی سے چھانا پھٹکا اور بڑے سلیقے سے انکو قارئین کے سامنے پیش کیاـ مؤلف کتاب و سوانح نگار کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

راقم الحروف کو حضرت شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان صاحب سے بچپن ہی سے عقیدت و محبت تھی، نو یا دس سال کی عمر تھی اسی وقت سے والد محترم حضرت مولانا قاری شفیق الرحمن صاحب کے توسط سے آپکی زیارت و ملاقات کا برابر موقع ملتا رہا، اس عرصہ میں آپکو بہت قریب سے دیکھا، پرکھا اور برتا، جس سے آپکی عقیدت و محبت دل میں راسخ ہوتی چلی گئ، آپکی دلآویز اور حسین شخصیت میں پنہاں اوصاف و کمالات، آپکے خاندانی احوال، تعلیم و تربیت، زمانۂ تدریس، آپکے چند نامور اور مشہور تلامذہ کا تعارف، ارشاد و ملفوظات اور کوئ اہل علم کے تاثراتی مضامین پر مشتمل یہ سوانح درحقیقت عقیدت و محبت اور رشتۂ تلمذ کے پاکیزہ جذبات کا اظہار ہے ـ یوں بھی کہہ سکتےہیں کہ یہ سوانح اس عظیم المرتبت شخصیت کی خدمت میں ایک حقیر سا نذرانۂ عقیدت ہے جس کے احسانات سے جماعت دیوبند کا ہر فرد زیر بار ہے اور جس نے نصف صدی سے زیادہ تک اپنے علمی سمندر سے امت کے ایک بڑے طبقے کو سیراب کیا


کتاب پر ناشر کا نام نہیں لکھا گیا ہے، قیمت دو سو بچیس روپے درج کی گئ ہے 


تعارفِ فقہی ضوابط

قارئین جانتے ہونگے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ کے خصوصی کرم فرماؤں میں سے ہیں، انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب: تاریخ بغداد میں ایک باب میں بطور خاص  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کئے ہیں، منجملہ ان کے ایک اعتراض یہ ہے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں روایت لاتے ہیں کہ شام سے ایک شخص امام  صاحب کے پاس آیا، آکر اس نے کہا: میں آپ سے ایک ہزار مسئلے پوچھنے آیا ہوں، امام صاحب نے فرمایا: پوچھو..........روایت ختم
اس روایت میں بظاہر کوئ اعتراض نہیں لیکن اگر آپ اس روایت کے "بین السطور" میں غور فرمائیں تو آپکو اعتراض نظر آئے گا اس طور پر کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ بالواسطہ یہ فرمانا چاہ رہے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کو ایک ہزار مسئلوں کا جواب دینے کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں، وہ ہر مسئلہ کا جواب قیاس (رائے) سے دیتے ہیں تو ان ہزار مسائل کا جواب بھی قیاس (رائے)سے دیدیں گے، کیا مشکل ہوگی ان کیلئے؟؟؟  اس روایت کے جواب میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ کوئ اعتراض نہیں ہے، کیونکہ آدمی کو جب اصول و کلیات محفوظ اور ازبر ہوجاتےہیں تو پھر فروعات و جزئیات کا جواب دینا آسان ہوجاتاہے ـ ثانیا یہ بھی کیا ضروری ہے کہ امام صاحب ہر مسئلہ کا جواب دے ہی دیں "میں نہیں جانتا" یہ بھی تو ایک جواب ہے، امام مالک رحمہ اللہ سے بھی ایک مجلس میں چالیس مسئلے پوچھے گئے تھے، آپ نے سب کا یہی جواب دیا کہ میں نہیں جانتا

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فروعات و جزئیات کے جواب کے دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ ہر ہر فروعی مسئلہ اور ہر ہر جزئی کا جواب کتاب سے مراجعت کرکے یا اپنے ذہن پہ زور ڈال کے دیا جائے، ظاہر ہے یہ کافی ورق گردانی اور "ذہنی مشق" قسم کا طریقۂ کار ہے
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جواب دینے والے کی نظر فروعات کے بجائے فروعات جن سرچشموں سے پھوٹ رہی ہیں (اصول) ان پہ، جزئیات جن کلیات سے نکل رہی ہیں ان پہ نظر رہے، اصول و کلیات پر نظر رکھنے والے شخص کو ہر ہر فروعی مسئلہ یا ہر ہر جزئی خاص یاد رکھنےکی ضرورت نہیں ہوتی، وہ پوچھے گئے مسئلہ فرعی کا جواب اس کی "اصل" کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی جلدی اور آسانی سے دیدیتا ہے ـ یہی اصول و کلیات جنکو سامنے رکھ کر کسی بھی مسئلہ فرعی اور جزئی کا جواب دیا جاتا ہے انکو اصطلاح فقہاء میں قواعد اور ضوابط کہا جاتاہے، عربی زبان میں اس موضوع پر کافی کچھ لکھا گیا ہے، قواعد و ضوابط اور اشباہ و نظائر پر مستقلا تصنیفات موجود ہیں مگر اردو کا دامن ابھی تک اس موضوع سے خالی چلا آرہا تھا ـ زیر نظر کتاب اسی خالی دامن میں اولین نقش و نگار کی حیثیت رکھتی ہے، مولف کتاب نے براہ راستہ عربی مصادر کا مطالعہ کرکے منتشر ہیروں کو چن چن کر قارئین، طلبہ اور اساتذہ کیلئے گراں قدر ہار ترتیب دیا ہے جس کی رعنائی و زیبائ کو بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم پیش لفظ میں ارقام فرماتےہیں:

"یہ کتاب طلبہ کیلئے تو مفید ہے ہی اساتذہ کیلئے بھی مفید ہے، اگر اساتذہ اسکا مطالعہ کریں تو انکی فقہ کی تعلیم میں چار چاند لگ جائیں اور ان کیلئے بکھری ہوئ جزئیات کو ایک لڑی میں پرو کر پیش کرنا آسان ہوجائے گا"

کتاب کے دو حصے آچکے ہیں جن میں کتاب الہبہ تک کے ابواب کا احاطہ کیا گیا ہے ـ 

Thursday, January 5, 2012

فلسطین کسی صلاح دین کے انتظار میں

 بحر روم کے کنارے شام سے مصر تک پھیلی ہوئی ایک طویل ساحلی پٹی ہے جسے فلسطین کہتے ہیں۔27 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ پر مشتمل یہ سرزمین انبیاء و رسل کا مرکز رہی ہے ،اسی مقدس خطہ ارض میں وہ شہر واقع ہے جسے قدیم تاریخ میں "ایلیا"یرو شلم، عربی میں القدس اور اردو میں بیت المقدس کہا جاتا ہے۔بیت المقدس تینوں ہی آسمانی مذا  ہب ا سلام،عیسائیت ا ور یہودیت کے نزدیک بے حد محترم ہے،اہل اسلام کے نزدیک اس لئے کہ یہیں مسجد اقصی ہے جو ان کا قبلہ اول بھی ہے اور جائے معراج بھی،مسیحیوں کے نزد یک اس وجہ سے کہ اسی میں ان کا سب سے مقدس چرچ "کنیسہ قیامہ "ہے جس میں بقول ان کے حضرت عیسی علی نبینا و علیہ السلام مصلوب و مدفون ہوئے اور جس پر قبضہ کیلئے متحدہ یورپ نے طویل خوں ریز صلیبی جنگیں لڑیں اور بالآخر بطل جلیل حضرت صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شرم ناک اور تباہ کن شکست سے دوچار ہو۔ اور یہودیوں کے نزدیک اس بنا پر کہ یہاں ہی کبھی وہ ہیکل سلیمانی تھا جس کی تباہی کو یاد کر کے وہ آج بھی مسجد اقصی کی مغربی دیوار کے پاس گریہ و زاری کرتے ہیں اور اس کی تعمیر نو کو عظیم تر اسرائیل کی خشت اول گردانتے ہیں
       
فلسطین کے اصل باشندے فینقی اور کنعانی عرب ہیں جو قدیم زمانے میں جزیرۃ العرب سے اٹھ کر اس ویرانے میں آباد ہوئے ،اور عربوں اور مسلمانوں کا اقتداراور دلچسپی بھی اس سر زمین سے سب سے زیادہ رہی ہے، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف ادوار پر مشتمل یہودیوں کا عرصہ اقتداراس علاقے پر پانچ صدی سے زائد نہیں ہے،عیسائیوں کا دور حکومت اس سے بھی کم ہے جو  236 ء میں قیصر روم قسطنطین اعظم کے قبول عیسائیت سے شروع ہو کر خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ذریعہ  637ء میں فتح بیت المقدس کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے جبکہ مسلمانوں کی مدت حکمرانی بڑی طویل ہے،  637 سے لے کر پہلی جنگ عظیم میں  1917تک تقریبا تیرہ صدی مسلمان بلا شرکت غیرے اس کے فرماں روا رہے، اس دوران صرف ایک موقعہ ایسا آیا جب پہلی صلیبی جنگ کے نتیجہ میں بارویں صدی عیسوی میں 88 سال کیلئے بیت المقدس عیسائیوں کے زیر قبضہ چلا گیا، اس کے علاوہ مسلمانوں نے اس شہر کو جو اہمیت دی وہ کسی اور کے یہاں نظر نہیں آتی، فتح بیت المقدس کے وقت خلیفۂ وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے اور غالبا یہ ان کی حیات مبارکہ کا سب سے طویل سفر تھا، قیصر و کسری سے جنگ میں بھی انہوں نے یہ دلچسپی نہیں دکھائی تھی، کئی اموی خلفاء نے تبرکااپنی اخلافت کا اعلان اور بیعت یہیں کی، احاطہ حرم کی جملہ تعمیرات اسلامی دور کی ہیں، مسجد اقصی خلیفہ عبد الملک اور گنبد صخرہ ولید بن عبد الملک نے تعمیر کیا، اس کے علاوہ شہر اور اس کے مضافات میں پھیلے ہوئے بے شمار مسافر خانے،تعلیمی ادارے،ہسپتال اور زیارت گاہیں مسلمانوں ہی کے جذبۂ خیر کا ثمرہ ہیں، اس پورے عرصہ میں مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو خطے میں آباد عیسائی و یہودی رعایا نے خوش حالی،امن و امان اور آزادی و مساوات کے خوب مزے لوٹے اور ان کے ساتھ کسی طرح کی کوئی تفریق و امتیاز نہیں برتا گیا، جب کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے اپنے دور میں ایک دوسرے پر ظلم و ستم کی نئی نئی داستانیں رقم کیں
پھر ایک وقت آیا کہ یورپ مذہبی بندشوں کو توڑ کر روشن خیال اور لا مذہب ہوگیا اس وقت مختلف ممالک میں منتشر یہود کو کچھ راحت ملی اور انہیں اپنی شیرازہ بندی اور ایک قومی وطن بنانے کی فکر ہوئی، یہ احساس سب سے پہلے "ویانا" کے ایک یہودی صحافی "تیوڈر ہرزل" کو ہوا، اس نے  1896ء میں" ریاست یہود" کے نام سے ایک کتاب لکھ کر صہیونیوں کیلئے قومی وطن کا ٹھوس تصور پیش کیا، اس نے سلطنت سلیمانی کو بنیاد بنا کر ریاست کی حدود دریائے فرات سے دریائے نیل تک مقرر کیں، اس کتاب نے  یہودیوں میں ایک نیا جوش بھر دیا، انہوں نے ہرزل کی زیر سرپرستی 1897ء میں سوئزر لینڈ کے شہر "باسل"میں ایک عالمی کانفرنس منعقد کی اور مقصد کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگانے کا عہد کیا، بلاشبہ یہ کانفرنس تاریخ صیہونیت کا سنگ میل ہے،اس کے بعد ہی انہوں نے مختلف مراحل سے گذرتے ہوئےجنگ عظیم دوم میں اپنے مالی اور ٹیکنکل تعاون کے ذریعہ برطانیہ پر دباؤ بنایا کہ وہ انکی قومی وطن کی ضرورت کو تسلیم کرے، چنانچہ 1917ء میں جنگ کے اختتام پر جبکہ فلسطین برطانیہ کے قبضے میں جا چکا تھا برطانوی وزیر خارجہ"جیمز بالفور" نے ان کیلئے قومی وطن کے قیام کا اعلان کر دیا جو تاریخ میں" اعلان بالفور" کے نام سے مشہور ہے حالانکہ اس وقت یہودی مجموعی آبادی کا محض پانچ فیصد تھے۔ تب سے مسلسل برطانیہ کے زیر سایہ ان کی برق رفتار نقل مکانی ہوتی رہی تا آنکہ 1947ء میں برطانیہ نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی تحویل میں دے دیا جس نے 1948ء میں اس کی تقسیم کا اعلان کر دیا اور یوں عالمی نقشہ پر اسرائیل نام کے ایک ناجائز ملک کا جنم ہوا
زیر نظر کتاب "فلسطین کسی صلاح دین کے انتظار میں" اسی موضوع پر ایک تازہ تصنیف ہے جس کے مصنف ہیں ملک کے معروف دانش وراور اہل قلم گرامی مرتبت حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی مد ظلہ، موصوف نہ صرف صاحب طرز انشاء پردازاور عربی و اردو زبان ادب کے مایہ ناز پروفیسر ہیں بلکہ مسئلۂ فلسطین پر لکھنے والے چند عالمی سطح کے لوگوں میں ایک بہت نمایاں نام آپ کا بھی ہے، فکری پختگی،اسلوبی انفرادیت،تحقیقی ذوق،وسعت مطالعہ اور ملی تڑپ آپ کے وہ امتیازات ہیں جنہوں نے آپ کو ایک منفرداور بین الاقوامی مقام عطا  کیاہے، تقریبا تیس سال سے دار العلوم دیوبند کے عربی ترجمان ماہ نامہ" الداعی"  کے صفحات پر ملی اور عصری مسائل پر بحیثیت چیف ایڈیٹر مسلسل لکھ رہے ہیں اور خوب لکھ رہے ہیں، عربی حلقوں میں دار العلوم کی ترجمانی اور حضرات اکابر دیوبند کے علوم کو بلیغ عربی میں منتقل کرنے کا جو نایاب کارنامہ موصوف نے انجام دیا ہے وہ مادرعلمی اور اس کے مسلک سے ان کی والہانہ عقیدت کا خراج بھی ہے اور دنیا میں پھیلی ہوئی قاسمی برادری پر ایک احسان عظیم بھی
ہم دست کتاب در اصل فاضل مصنف کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے نے اپنے رسالے میں کلمۃ المحرر، کلمۃ العدد اور مقبول ترین کالم" اشراقہ" کے تحت مختلف اوقات میں قلم بند کئے، حلات کے اتار چڑھاؤ کے مطابق لکھے گئے یہ مقالات در حقیقت قضیۂ فلسطین کے تیس سالہ نشیب و فراز کی مکمل روداد ہیں، اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ المیہ فلسطین کیوں پیش آیا،؟اس کے پیچھے کون سے طاقت ور عوامل کار فرما تھے۔عربوں کی پیہم پسپائی،انکی متعدد ذلت آمیز شکست، کیمپ ڈیوڈ اور اوسلومعاہدات کے خفیہ مقاصد، محمود عباس کا انتخاب اور یہودیوں کے مستقبل  کے خوف ناک عزائم کی حیران کن تفصیلات اہل دانش کیلئے خاصے کی چیزیں ہیں
انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس حوالے سے مغرب کی پالیسی ہمیشہ دوغلی رہی ہے، اقوام متحدہ نے منافقانہ کردار ادا کیا ہے اور واحد سپر پاور امریکہ خود سے زیادہ اسرائیل کو تحفظ دینے کی سعی کی ہےجس کا اسے فی الحال بھی اور آئندہ بھی کڑوا پھل چکھنا پڑے گا، انہوں نے عالم اسلام کے حکم رانوں کو انکی کاہلی،عیش کوشی، بےتدبیری اور ناعاقبت اندیشی پرخوب کوسا ہے اور خدا کی عطا کردہ ان کی مادی و معنوی دولت  کا حوالہ دے کر انہیں ذرۂ نامقدار اسرائیل کے ساتھ مصالحانہ رویہ اپنانے پر کڑی تنقید کی ہے،انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح ہمارے قابل فخر اسلاف نے شب و روز کی راحتوں کو پس انداز کر کے بیت المقدس کو صلیبوں کے 88 سالہ منحوس قبضے سے وا گذار کرایا اور کس طرح عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے صیہونیوں کے منصوبوں کو خاک میں ملاتے ہوئے ان کے نمائندوں کو یہ کہہ کر دھتکار دیا تھا کہ جب تک آل عثمانی کا کوئی فرد غیور زندہ ہے اس وقت تک ارض فلسطین کیاایک بالشت زمین بھی تمہیں نصیب نہیں ہوگی
کتاب  کےآغاز میں مقدمے کے عنوان سے لائق ایڈیٹر نے جو کچھ تحریر کیا ہے وہ اختصار، جامعیت شستگی،اور روانی کا شاہ کار ہے اس کو شراع کر نے کے بعد قاری ختم کئے بغیر نہیں رہ سکتا، کتاب کے مباحث کو اس میں اس طرح سمیٹا گیا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد مسئلے کے جملہ پہلؤوں سے واقفیت بسہولت اور بہت جلد ہوجاتی ہے۔ اس طرح23 صفحات پر مشتمل یہ نفیس پیش لفظ میرے نزدیک کتاب کا عطر ہے اور خلاصہ
اسی طرح کتاب کے شروع میں شائع شدہ مضامین کے علاوہ تین نئے لازمی مضامین کا اضافہ در حقیقت کتاب کا بہترین تکملہ ہے جس میں بیت المقدس،ارض فلسطین اور قیام اسرائیل سے اب تک یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے تمام قتل عاموں کی پوری تفصیل درج ہے۔ اس اضافے سے نہ صرف کتاب کی قدر و قیمت دو چند ہوئی ہے  بلکہ قارئین کیلئے متعلقہ مسئلے پر ایک مسلسل اور مربوط معلومات کی راہ آسان ہوگئی ہے
زیر بحث قضیے پر سیر حاصل گفتگو کے بعد دیدہ ور قلم نے موجودہ صورت حال کا دردمندانہ تجزیہ کیا ہے اور فلسطین کے دونوں  متحارب گروپوں حماس اور الفتح کا رونا رویا ہے، ان کے خیال میں حماس ارض مقدس کی بازیابی کیلئے ایک مخلص،متدین، سرفروش اورہوش مندجماعت ہے جب کہ الفتح ملحد،موقع پرست،سودے بازاور مسئلے کے منصفانہ حل کیلئے سب سے بڑا روڑہ۔ اور شاید دونوں کی یہی خصوصیت ایک کو چشم مغرب کا تنکا بنائے ہوئے ہے اور دوسرے کو اس کا تارہ۔ طویل تاریخی مطالعےاور حالات کے گہرے تجزیےکی روشنی میں آخر میں انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس حوالے سے کسی نوع کے معاہدات و مذاکرات بالکل لاحاصل اور بے سود ہیں جن کا مقصد حریف کو ڈھیل دینے اور طاقت فراہم کر نے کے سوا کچھ نہیں، مسئلے کا حل صرف مجاہدانہ جوش و خروش اور جہاد و قتال کا جذبۂ صادق ہی ہے اور دشمن فقط اسی کی زبان سمجھتا ہے اس لئے بقول ان کے فلسطین پھر کسی صلاح الدین کے انتظار میں ہے
مبصر:وصی احمد قاسمی 
بشکریہ: محدث عصر

Friday, December 30, 2011

آپ کے مسائل اور ان کا حل نئی ترتیب کے ساتھ منظر عام پر

اہل علم ساتھیوں کو خوشخبری دی جاتی ہے کہ مقبول خاص و عام مجموعہ فتاوی آپ کے مسائل اور ان کا حل نئی ترتیب و اضافہ کثیر کے ساتھ
ہندوستان میں بھی شائع ہو گیا ہے، ترتیب جدید میں کن کن امور کا لحاظ رکھا گیا ہے،صاحب پیش لفظ مفتی خالد محمود ان سے یوں متعارف کراتے ہیں:
1ہر ہر جزئیہ کی تخریج کی گئی ہے
2 بہت سی جگہ ایک جواب میں کئی کئی جزئیات تھے تو وہاں ہر ہر جزئیہ کی علاحدہ  علاحدہ تخریج کی گئی ہے
3 کوشش کی گئی ہے کہ ہر ہر جزئیہ کی تخریج متعلقہ صفحہ میں درج کی جائے
4  ہرحوالہ میں باب، فصل اور مطلب وغیرہ کے التزام کے ساتھ طبع کا حوالہ  بھی دیا گیا ہے
5 تمام  مسائل پہ نظر ثانی کی گئی ہے
 6 کہیں کہیں جواب میں غیر مفتی بہ قول کو اختیار کیا گیا تھا اسے تبدیل کر کے مفتی بہ قول کے مطابق کر دیا گیا ہے
بہت سے مسائل  جو ان جلدوں کےچھپنے کے بعداخبارات میں شائع ہوئے تھے، موضوع کے اعتبار سے انکا بھی اضافہ کیا گیا ہےجو ایک کثیر تعداد میں ہیں
7 مسائل میں بعض جگہ تکرار تھا اس تکرار کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اگر کسی سوال یا جواب کو دوبارہ مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے تو اسے بر قرار رکھا گیا ہے بعض جگہ جواب میں بہت اختصار تھا جس سے مسئلہ کی صورت واضح نہیں ہوتی تھی اسے قدرے وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے
8 قادیانیت سےمتعلق بعض سوالات کے جوابات حضرت شہیدؒ نے قدرے تفصیل سے دئےتھے اور علاحدہ شکل کی صورت میں شائع ہوئے تھے انہیں بھی اس میں شامل کر دیا گیا ہےبعض جلدوں میں مسائل اپنے موضوع کے اعتبار سے متعلقہ جگہ پر نہیں تھے انہی متعلقہ موضوع کے تحت کیا گیا ہے اس طرح کئی جلدیں خصوصا جلد دوم،ہفتم اور ہشتم کی ترتیب خاصی بدل چکی ہے
9 پہلے تمام جلدیں عام کتابی سائز میں تھیں اب تمام جلدوں کو فتاوی کے عام سائز پر شائع کیا گیا ہے ،بڑے سائز کی وجہ سےاب یہ مجموعہ آٹھ جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ کتاب پر ایک طائرانہ نظر 


  

Thursday, November 3, 2011

تعارفِ علمی خطبات


اللہ جل شانہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اور انھیں گمراہی سے بچانے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا ، جس کی آخری کڑی فخر کائنات حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔ آپؐ نے اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچایا اور بندوں کا رشتہ معبود حقیقی سے جوڑا، آپؐ کے بعد علمائے کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوئی، انھوں نے بھی ہر زمانہ میں اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دیا، کتاب وحکمت کی تعلیم کے ساتھ وعظ وارشاد سے بھی تزکیۂ نفوس فرمایا۔ اور العلماء ورثۃالأنبیاء کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کردیا۔
     انہی عظیم المرتبت علماء میں سے ایک تابندہ شخصیت: محدث جلیل، متکلم اسلام، شارح حجۃ اللہ البالغہ، فقیہ النفس حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم (شیخ الحدیث وصدر المدرسین  دار العلوم دیوبند  )کی ہے۔ جن کے مواعظ کی دو جلدیں  بنام' علمی خطبات' ہدیۂ ناظرین کی جارہی ہے، حضرت موصوف کو حق تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے اور کمالات سے نوازا ہے، آپ کا ذوق لطیف، طبیعت سادہ اور نفیس ہے، مزاج میں استقلال واعتدال ہے، حق وباطل اور صواب وخطا کے درمیان امتیاز کرنے کی وافر صلاحیت رکھتے ہیں اور حقائق ومعارف میں یکتائے زمانہ ہیں، چونکہ حضرت والا نے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ کی مایہ ناز تصنیف 'حجۃ اللہ البالغہ' کی شرح لکھی ہے، جس کا نام ' رحمۃاللہ الواسعہ' ہے( یہ شرح پانچ جلدوں میں مطبوعہ اور مقبول خاص وعام ہے) اور ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ دار العلوم دیوبند  میں پندرہ بیس سال تک اس کا کامیاب درس دیا ہے، اس لئے حکمت شرعیہ سے آپ کو خاص مناسبت ہے، چنانچہ موصوف کا ہر درس، ہر تقریر اور ہر تحریر علمی نکات ولطائف اور اسرار وحکم سے لبریز ہوتی ہے۔ موصوف آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے رازہائے سربستہ سے اس طرح پردہ اٹھاتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے جیسے علوم وفنون کا ایک بحر ذخار موجزن ہے، خدا وندقدوس نے آپ کو رسوخ فی العلم کے ساتھ مرتب گفتگو کا سلیقہ بھی عطا فرمایا ہے، جس کی نظیر نہ صرف ہم عصروں میں بلکہ زمانہ ماضی میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ آپ کی ہر تقریر اور ہر تحریر حسن ترتیب اور مشکل کو آسان بنانے میں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے اور گنجینۂ علم وحکمت ہوتی ہے۔
     آپ کے سحر آفریں، علم وحکمت سے لبریز، لاجواب اور بے مثال خطابات کو عوام وخواص بہت دلچسپی اور شوق سے سنتے ہیں، جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان موصوف مخصوص افہام وتفہیم اور حکیمانہ اسلوبِ بیان کی وجہ سے خاص طور پر مقبول ہیں۔ بظاہر تقریر میں نہ جوش وخروش ہوتا ہے، نہ پُرتکلف انداز بیان، نہ خطیبانہ ادائیں، مگر خطابات اس قدر مؤثر اور مسحور کن ہوتے ہیں کہ سامعین سراپا گوش بن جاتے ہیں اور اہل علم عش عش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تدریس وتقریر میں جوڑ نہیں، جو تدریس میں کامیاب ہوتا ہے وہ تقریر میں ناکام رہتا ہے، اور جو تقریر میں ید طولی رکھتا ہے اس کا درس پھیکا پڑجاتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تدریس کا انداز برہانی ہوتا ہے اور تقریر کا خطابی، برہانی یعنی دلائل سے مضبوط بیان، اور خطابی یعنی دلوں کو چھولینے والا انداز، چاہے کہی ہوئی باتیں کمزور ہی کیوں نہ ہوں، درس میں کمزور باتیں نہیں چلتیں، مضبوط باتیں ہی تدریس میں جان ڈالتی ہیں، اور خطاب میں اگر مضبوط باتیں بیان کی جائیں تو بیان میں جوش پیدا نہیں ہوتا اس لئے خطاب میں خطابی باتیں ضروری ہوتی ہیں۔
    غرض: دونوں خوبیوں کو جمع کرنا ضدین کو جمع کرنا ہے، پھر اگر تدریس غالب آجاتی ہے تو عوامی خطاب میں بھی وہی رنگ جھلکتا ہے۔ اور خطابی انداز غالب آجاتا ہے تو مختصر المعانی کے درس میں بھی سیرت النبی کا مزہ آتا ہے۔
   حضرت مفتی صاحب مدظلہ پر تدریس کاانداز غالب ہے، وہ ہمیشہ برہانی باتیں بیان کرتے ہیں، کبھی کوئی کچی بات نہیں کہتے، آپ کی تمام تقریریں آپ کو علمی مواد سے بھرپور ملیں گی، اور ایسی دقیق باتیں آپ کو ان خطابات میں ملیں گی جو آپ نے بہت کم کتابوں میں پڑھی ہونگی، اس لئے  ان خطبات کا نام 'علمی خطبات' رکھا  گیاہے، یعنی حکم وحکمت سے لبریز تقریریں، قارئین کرام کو بھی یہ تقریریں اسی نقطۂ نظر سے پڑھنی چاہئیں۔
   اور تدریس اور علمی انداز خطاب اگرچہ خشک ہوتا ہے، مگر حضرت والا کے بیانات خشک نہیں ، کیونکہ حضرت والا اپنے بیان میں دو باتوں کا خاص اہتمام فرماتے ہیں:
     ایک: مشکل مضمون: آپ دو تین بار بیان کرتے ہیں، کبھی بلفظہ مکرر بیان کرتے ہیں اور کبھی بالفاظ دیگر مضمون دوہراتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی طریقہ تھا، بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( کبھی) کلام کو تین مرتبہ دوہراتے تھے تاکہ آپ کی بات اچھی طرح سمجھ لی جائے۔ حضرت والدصاحب بھی اس سنت پر عمل کرتے ہیں اس لئے دقیق علمی مضامین بھی قابل فہم بن جاتے ہیں۔
    دوم: دورانِ تقریر آپ لطائف وحکایات بیان فرماتے ہیں، جب لوگوں کے ذہن بوجھل ہوجاتے ہیں تو آپ فوراً کوئی ایسا واقعہ سناتے ہیں کہ لوگ ہنس پڑیں اور ذہن اگلی بات سننے کے لئے تازہ ہوجائے، مگر واقعات برائے واقعات نہیں ہوتے، ان سے بھی استدلال فرماتے ہیں، اس لئے لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔
     مگر خطابات کو جب کتابی شکل میں مرتب کیا گیا توتکرار حذف کردی گئی ، کیونکہ گفتگو میں تو یہ بات لطف دیتی ہے مگر تحریر میں بدمزگی پیدا کرتی ہے، البتہ واقعات باقی رکھے  گئےہیں، کیونکہ ان سے بیان میں استدلال کیا گیا ہے، اس طرح بیانات کتابی شکل میں بھی لطف سے خالی نہیں.

  جن عنوانات کے تحت مضامین لئے گئے  ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
خطبہ مسنونہ کے مضامین
قرآن کریم متقیوں کے لیے راہ نما کتاب ہے
 روزے اور زکوٰة کے ضروری مسائل
 روزوں کے تعلق سے رمضان کی تخصیص
 نماز عید سے پہلے خطاب
 ختم نبوت کا بیان
 عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول ہیں
 دنیا کی زندگی کس مقصد کے لیے ہے
 آگ والے اور باغ والے یکساں نہیں
زندگیوں کو راحت و سکون کیسے نصیب ہو
سورہ فاتحہ کی تفسیر
جھگڑا کھڑا کرنے والی چھ باتیں
مودودی جماعت کی پانچ گمراہیاں
دس دن میں قرآن ختم کرنا کیسا ہے؟
چاند کے بارے میں

Monday, October 31, 2011

حجۃ اللہ کو کیسے سمجھیں


 خطبۂ مسنونہ کے بعد:(اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الِاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الأَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ)                
 واجب الاحترام علمائے کرام! مجھے آج تقریر کے لئے موضوع یہ دیا گیا ہے کہ امام الہند حضرت اقدس شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ کی مشہور زمانہ، مایۂ ناز کتاب: حجۃ اﷲ البالغۃکے سلسلہ میں کچھ باتیں عرض کروں۔
     آپ سبھی حضرات جانتے ہیں کہ حجۃ اللہ البالغہ ایک دقیق کتاب ہے، مگر دقیق ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا، اس کو حل نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کوسمجھنے کے لئے محنت کرنی پڑے گی۔ عام کتابوں کے پڑھنے اور سمجھنے کے لئے جتنی محنت درکار ہوتی ہے اتنی محنت اس کتاب کے لئے کافی نہیں۔ اس کے لئے محنت شاقہ برداشت کرنی پڑے گی، جبھی کتاب سمجھ میں آئے گی۔
      جیسے ایک حدیث میں ہے:أَرْبَعُُ فِیْ أُمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجاھلِیَّةِ، لَنْ یَّدَعَھُنَّ الناسُ، النِّیاحةُ، والطعنُ فی الأَحْساب، والْعَدْویٰ: أَجْرَبَ بعیر فأجرب مأةَ بعیرٍ، مَنْ أَجْرَبَ البعیرَ الأولَّ؟ وَالأَنْوَاءُ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ کِذَا وَکَذَا( ترمذی شریف حدیث :٨٨٢)
      ترجمہ: میری امت میں جاہلیت کی چار چیزیں ایسی ہیں جنھیں لوگ ہرگز نہیں چھوڑ یں گے (١) نوحہ کرنا، مرنے والے کا ماتم کرنا(٢) خاندان پر اعتراض کرنا (٣) یہ اعتقاد رکھنا کہ ایک کی بیماری دوسرے کو لگتی ہے، لوگ کہتے ہیں: ایک اونٹ کو کھجلی ہوئی تو سب کو ہوگئی، ان سے پوچھو: پہلے اونٹ کو کھجلی کہاں سے لگی (٤)نچھترّوں کا عقیدہ کہ فلاں نچھتر لگا تو بارش ہوئی۔
     اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب امت ان باتوں کو نہیں چھوڑے گی تو یہ باتیں چلنے دی جائیں، ان کے ازالے کے لئے محنت نہ کی جائے، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مصلحین امت ان چار باتوں کو امت میں سے نکالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں، کسی بھی طریقے سے ان چار باتوں کو امت میں سے ختم کریں، جیسے کپڑے پر داغ لگ جاتا ہے تو دھوتے ہیں اور چائے گرجاتی ہے تو اس کو ہر ممکن طریقہ سے زائل کرتے ہیں،اسی طرح یہ چار خرابیاں امت میں ایسی ہیں جو آسانی سے نکلنے والی نہیں، پس مصلحین امت کی ذمہ داری ہے کہ انکے پیچھے خصوصی محنت کریں، اور کسی بھی طرح امت میں سے ان چار باتوں کو نکالیں ۔
     اسی طرح میں عرض کرتا ہوں کہ حجۃ اللہ البالغہ دقیق کتاب ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو یہ کہہ کر چھوڑ دو کہ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں! ارے بھائی! انسان نے لکھی ہے، ہم ایسی کتاب لکھ نہیں سکتے تو سمجھ تو سکتے ہیں، مگر عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ سپر ڈال دیتے ہیں، ہمت ہار جاتے ہیں، کہتے ہیں: یہ کتاب بہت مشکل ہے، چیدہ چیدہ حضرات ہی اس کا مطالعہ کرتے ہیں، عام طور پر لوگوں نے اس کو چھوڑ رکھا ہے، پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ موقوف کردیا ہے، اس طرح اس کتاب کا جو عظیم فائدہ تھا اس سے امت محروم ہوگئی، اس لئے میں نے قرآن کی جو پہلی وحی ہے اس کی پانچ آیتیں پڑھی ہیں، پہلے یہ پانچ آیتیں سمجھ لی جائیں تو بات آگے بڑھائی جائے گی۔
     پڑھنے کی اہمیت
     قرآنِ کریم کی پہلی وحی میں دو اقرأ ہیں، ایک: ناخواندہ کا اقرأ ہے اور ایک: خواندہ کا، ناخواندہ کے اقرأ کی آخری حد ہے، مگر خواندہ کا اقرأ غیر محدود ہے، زندگی کے آخری سانس تک پڑھنا چاہئے۔ جب یہ دو اقرأ جمع ہوں گے تبھی قلعہ فتح ہوگا، اگر کسی نے ایک اقرأ پر اکتفا کرلیا تو قلعہ فتح نہیں ہوگا۔
      پہلی وحی کے مخاطب اول کون تھے؟ ناخواندہ لوگ! جو اپنے امی ہونے پر فخر کیا کرتے تھے، ان سے پہلی بات جوکہی گئی ہے اس سے پڑھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ پھر پہلی وحی کا جو پہلا کلمہ ہے اس سے پڑھنے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
     پہلی وحی کا پہلا کلمہ: پڑھ!
     اللہ تعالیٰ کی پہلی وحی کا پہلا کلمہ ہے پڑھ! فرمایا :(اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ): پڑھ اس پروردگار کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا، جس نے تجھے نیست سے ہست کیا، اس کے نام کی مدد لے کر پڑھ وہ ضرور تجھے عالم بنادے گا۔ ذرا تو اپنی پیدائش کے مراحل کو سوچ، تجھے اللہ نے سات مراحل سے گذار کر انسان بنایا ہے، اور یہ ساتوں مراحل بے جان مادہ ہیں، ان سات بے جان مادوں سے گذار کر تجھے اشرف المخلوقات بنایا ، پس جو ہستی بے جان مادوں میں تبدیلیاں کرکے اشرف المخلوقات بناسکتی ہے وہ تجھ جاہل ناخواندہ کو اگر تو اس کے نام کی مدد سے پڑھے تو مختلف مراحل سے گذار کر عالم نہیں بناسکتی؟ ضرور بناسکتی ہے، پس تو پڑھنے کے لئے کمر کس لے۔
    تخلیقِ انسان کے سات مراحل
     تخلیقِ انسان کے سات مراحل کا تذکرہ اٹھارہویں پارے کے پہلے رکوع میں آیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اُن آیات میں انسان کی تخلیق کے سات مراحل کا بیان ہے، وہ سات مراحل کیا ہیں؟ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو مٹی سے بنایا، پھر مٹی کاست( جوہر) نکالا، ایک ہی آیت میں دو مرحلوں کا ذکر ہے: (لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِیْنٍ): مٹی کے جوہر سے ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ مٹی کا جوہر کیا ہے، ہم مٹی سے پیدا ہونے والی غذائیں کھاتے ہیں ، ان غذاؤں سے ہمارے بدن میں خون بنتا ہے، یہ خون مٹی کا سلالہ اور جوہر ہے(ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ): پھر ہم نے اس جوہر کو نطفہ بنایا، یہ تیسرا مرحلہ ہے، ہمارے بدن میں جو خون ہے اس سے خاص جوہر نکالا جاتا ہے، وہ مادہ بنتا ہے، اس مادے کو اللہ تعالیٰ رحم مادر میں پہنچاتے ہیں اور حمل ٹھہر جاتا ہے، حمل ٹھہرنے کے بعد بچہ دانی کا منھ بند ہوجاتا ہے، نہ باہر کی کوئی چیز اندر جاسکتی ہے اور نہ اندر کی کوئی چیز باہر آسکتی ہے، یہی قرار مکین: اطمینان سے نطفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ انسان کی تخلیق کے یہ تین مرحلے ہوئے، مٹی، مٹی کا جوہر اور مادہ۔
      بچہ دانی میں جاکر وہ مادہ چالیس دن میں علقة ( خون بستہ) بن جاتا ہے۔ یہ چوتھا مرحلہ ہے جو بیچ کا مرحلہ ہے، جب سات مرحلے ہیں تو بیچ میں کوئی نہ کوئی مرحلہ ضرور ہوگا، پھر اس کے بعدعلقة:مضغة ( بوٹی ) بنتا ہے پھر اس مضغہ میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھتا ہے۔ یہ کل سات مرحلے ہوئے اور یہ ساتوں مرحلے بے جان مادہ ہیں   ان سات مراحل سے گذار کر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی مخلوق بنادی جس سے بہتر اور اشرف مخلوق کوئی نہیں، بڑی برکت والی ہے وہ ذات جو احسن الخالقین ہے۔
     ان سات مرحلوں میں سے بیچ کے مرحلہ کا ذکر فرماتے ہیں:(خَلَقَ الِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ): اللہ نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا، اس پردروگار کے نام کی مدد سے پڑھ وہ تجھ جاہل ناخواندہ کو عالم بنادے گا۔ یہ پہلا اقرأ ہے جو ناخواندہ کا اقرأ ہے، وہ الف باء سے شروع ہوتا ہے اور اس کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ آدمی میں استعداد پیدا ہوجائے، جب تک استعداد پیدا نہ ہو پڑھتا رہے، دورہ پڑھ کر یہ نہ سمجھ لے کہ میں فارغ ہوگیا۔
     دوسرا  اِقْرَأْ:
      پھر دوسرا اقرأ شروع ہوتا ہے اور غور کرو انداز بیان کیسے بدل رہا ہے، فرمایا: (اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الأَکْرَمُ): پڑھ اورتیرا پروردگار بڑا کریم( سخی) ہے، اس کے یہاں فضل کی کمی نہیں، جتنا پڑھے گا اتنا بڑھے گا۔ وہ تجھے بے حساب علم دے گا۔
     یہ خواندہ کا اقرأ ہے اور اس کی کم سے کم مقدار متعین ہے، مطالعہ کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد یہ مرحلہ شروع ہوتا ہے، اور اس کی آخری حد کوئی نہیں۔ کائنات میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت نانوتوی قدس سرہ نے رسالہ تحذیر الناس میں ایک حدیث لکھی ہے: عُلِّمْتُ علمَ الأولین والآخرین: مجھے اگلوں اور پچھلوں کا علم دیا گیا ہے، پوری کائنات کے پاس جتنا علم ہے اتنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے، ایسی ہستی کو اللہ نے دعا سکھلائی ہے: (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا): آپؐ دعا کیجئے کہ اے اللہ! میرے علم میں اضافہ فرما، اتنا علم رکھنے والا بھی مامور ہے کہ وہ علم میں اضافہ کی دعا کرے، معلوم ہوا کہ علم کی کوئی حد نہیں۔
         اس کے بعد فرماتے ہیں:(الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ) تیرا پروردگار وہ ہے جو قلم کے ذریعہ علم سکھاتا ہے، پہلے استاذ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتا ہے پھر قلم کے ذریعہ یعنی اگلوں نے جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھتا ہے، اس طرح (عَلَّمَ الِاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ): اللہ تعالیٰ انسان کو وہ علوم سکھاتے ہیں جو وہ نہیں جانتا یعنی جو اس نے مدرسہ کی زندگی میں نہیں جانے وہ علوم اب ذاتی مطالعہ سے حاصل کرے گا۔               
      دور تنزل
      مگر اب تنزل کا زمانہ آگیا ہے۔ طلبہ کے پڑھنے میں بھی اور اساتذہ کے پڑھنے میں بھی ، طلبہ استعداد بننے سے پہلے فارغ ہوجاتے ہیں، اور اساتذہ عربی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتے، وہ سمجھتے ہیں کہ اردو شرحوں سے کام چل جائے گا، حالانکہ مصادر اصلیہ کا مطالعہ کئے بغیر علم میں کمال پیدا نہیں ہوسکتا، اس لئے میں نے یہ آیات کریمہ پڑھیں تاکہ ہم اپنی کمی دور کریں، اگر ہم نے اپنی کمی دور کرلی تو پھر ہمیں حجۃ اللہالبالغہ کسی سے پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی ، یہ تو دوسرے اقرأ میں آتی ہے، ہر ایک کو یہ کتاب خود پڑھنی ہے، مگر پڑھے گا وہی جو پہلے مرحلہ کے اقرأ سے کامیاب گذرا ہے، اگر پہلے مرحلہ سے کامیاب نہیں گذرا تو نہ خود مطالعہ کرسکتا ہے نہ اس کو پڑھانے سے کچھ حاصل ہوگا، میں نے یہ کتاب حضرت حکیم الاسلام رحمہ اللہ سے پڑھی ہے۔ حضرت کثیر الاسفار تھے ،صرف چند ابواب ہم نے حضرت سے پڑھے ہیں مگر اس سے کتاب کا اندازہ ہوگیا اور ہم نے طے کرلیا کہ اس کتاب کو حل کرکے چھوڑیں گے الحمد للہ وہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوگیا، کتاب حل کرلی، بلکہ شرح بھی لکھ دی۔
     شاہ صاحب کی دور بینی
     حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت شاہ صاحب  نے مستقبل میں جو محسوسات کا دور شروع ہونے والا تھا اس کو پہلے سے محسوس کرلیا تھا، حضرت شاہ صاحب کا زمانہ عقلیت پسندی کا زمانہ تھا، مگر شاہ صاحب کو یہ احساس ہوگیا تھاکہ آگے محسوسات کا دور آرہا ہے، سائنس کا دور آرہا ہے، ہر بات محسوس کرکے امت کے سامنے پیش کرنی ہوگی۔ اب یہ دور شروع ہوچکا ہے ۔ حضرت شاہ صاحب نے حجۃ اللہ اسی دور کے لئے لکھی ہے، اور اس میں ایسے افکار پیش کئے ہیں جن کی روشنی میں تمام مسائل شرعیہ کو محسوس بناکر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے، یورپ اور امریکہ تو ترقی یافتہ ممالک ہیں، یہاں بچے بھی ہر بات کی وجہ پوچھتے ہیں، ابھی اس نے ہوش کے ناخن بھی نہیں لئے، مگر مسائل شرعیہ کے بارے میں پوچھتا ہے: ایسا کیوں ہے؟ یعنی مسئلہ کو محسوس کرکے سمجھاؤ، تبھی وہ سمجھے گا ورنہ نہیں سمجھے گا۔
     بیت اللہ میں جاکر چھت نہ دیکھنے کی وجہ:
     ٹورنٹو کی مسجد دارالسلام میں ایک باپ اپنے بچہ کو لے کر آیا، بچے کی عمر مشکل سے دس گیارہ سال رہی ہوگی، اس کا باپ کہنے لگا: اس بچہ کا ایک سوال ہے، آپ اس کا جواب دیں۔ میں نے پوچھا: پیارے ! تیرا کیا سوال ہے؟ اس نے کہا: میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ جو شخص کعبہ شریف کے اندر جائے وہ چھت کی طرف نہ دیکھے، ایسا کیوں ہے؟ چھت کی طرف کیوں نہیں دیکھ سکتا؟ میں نے اس سے پوچھا: کعبہ شریف کے اندر کیوں جاتے ہیں؟ وہ بچہ تھا کیا جواب دیتا! اس لئے میں نے اسے بتایا کہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہیں، عبادت کرنے کے لئے جاتے ہیں، پھر میں نے اس سے پوچھا: پرانی عمارتیں( آثار قدیمہ) دیکھنے کے لئے اسکول کے بچے کیوں جاتے ہیں؟ اس نے کہا: عمارت دیکھنے کے لئے جاتے ہیں کہ کیسی ہے؟ کس چیز سے بنی ہے؟ اب میں نے اس کو سمجھایا کہ کعبہ شریف تمام عمارتوں سے پرانی عمارت ہے، مگر اس کے اندر جانا آثار قدیمہ دیکھنے کے لئے جانا نہیں ہے، اندر جانا عبادت کے لئے ہے، اللہ جتنی توفیق دیں نماز پڑھنی چاہئے اور نماز پڑھ کر نکل آنا چاہئے،دیواریں دیکھنا، چھت دیکھنا وغیرہ تو آثار ِ قدیمہ کی عمارتوں میں ہوتا ہے، اور دیوار دیکھنے کی ممانعت اس لئے نہیں کی کہ اس پر تو ضرور ہی نظر پڑے گی، اس سے نظر بچانہیں سکتے، اور چھت کو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ بچہ سمجھ گیا، اور مطمئن ہوکر چلاگیا، کیونکہ میں نے محسوس بناکر بات پیش کی تھی، اس لئے وہ آسانی سے سمجھ گیا۔
      اسی طرح ایک نوجوان میرے پاس آیا، یہ بھی ٹورنٹو کا واقعہ ہے، اس نے سوال کیا: دو نمازیں:ظہر اور عصر خاموش کیوں ہیں؟ اور تین نمازیں: مغرب، عشاء اور فجر جہری کیوں ہیں؟ یہ ایک دقیق مسئلہ تھا، ہمارے طلبہ بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے، وہ تو کالج میں پڑھنے والا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: آپ کی شادی ہوئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے کہا: تم میاں بیوی گپ کب کرتے ہو؟ دن میں یا رات میں؟ اس نے کہا: رات میں، دن میں تو ضروری باتیں کرتے ہیں، میں نے کہا: آپ کے سوال کا یہی جواب ہے، دن کو اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ زیادہ باتیں کرنے کو جی نہیں چاہتا، اسی لئے سنیما، ٹھیٹر اور گانے بجانے کے پروگرام رات میں ہوتے ہیں کیونکہ رات کی فطرت میں اللہ نے انبساط رکھا ہے اوردن کی فطرت میں انقباض اور جب طبیعت میں انقباض ہو تا ہے تو نہ سنانے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو، اس لئے دن کی نماز یںخاموش ہیں، اور رات میں طبیعت میں انبساط ہوتا ہے سنانے کو بھی جی چاہتا ہے اور سننے کو بھی، اس لئے رات کی نمازیں جہری ہیں۔
      پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دن کی فطرت میں انقباض اور رات کی فطرت میں انبساط کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کو اللہ تعالیٰ نے معاش کا وقت بنایا ہے، اگر اس میں انبساط رکھا جاتا تو آدمی ٹی وی دیکھتا رہتا ، گاتا بجاتا رہتا، بیوی سے گپ کرتا رہتا۔ نہ جوب (کام) پر جاتا نہ شوپ( دوکان) پر، اس لئے اس میں انقباض رکھا تاکہ آدمی صبح اٹھ کر نہا دھو کر نوکری پر پہنچ جائے یا دوکان کھول کر بیٹھ جائے، اور رات میں کوئی دھندا نہیں ، وہ سونے کے لئے ہے، اس لئے رات میں انبساط رکھا۔ اور شریعت نے انقباض وانبساط کا احکام میں لحاظ رکھا ، اسی لئے دن کی نمازوں کو سری اور رات کی نمازوں کو جہری کردیا۔
       اس نے سوال کیا: پھر جمعہ اور عیدین میں جہری قرأت کیوں ہے؟ میں نے اس سے پوچھا: آپ کے یہاں روز زفاف ہوتا ہے یا نہیں؟ شادی کے بعد رخصی دن میں عمل میں آتی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا: دن میں بھی عمل میں آتی ہے (یورپ اور امریکہ میں دن میں بھی رخصتی ہوتی ہے) میں نے کہا: جب رخصتی دن میں ہو اور روز ِ زفاف ہو تو پہلی ملاقات میں میاں بیوی گپ کرتے ہیں یا نہیں؟ اس نے کہا: کرتے ہیں، میں نے کہا: یہی آپ کے سوال کا جواب ہے، اس نے کہا: میں سمجھا نہیں۔ میں نے کہا: یہ موقع کی بات ہے اور خاص موقعوں کے احکام الگ ہوتے ہیں، جمعہ کے دن اورعید کے دن آدمی نہاتا ہے، نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنتا ہے، خوشبو لگاتا ہے اور بڑے اجتماع میں پہنچتا ہے۔ ایسے موقعہ پر طبیعت میں انبساط پیدا ہوجاتا ہے، اس لئے قرآن زور سے پڑھا جاتا ہے ۔
      یہ دقیق ترین مسئلہ تھا مگر میں نے اس کو محسوس بنادیا تو اس کی سمجھ میں آگیا، یہ سب حجةاللہ کی برکت ہے، حجۃ اللہمیں یہ مسئلہ نہیں آیا، مگر پڑھتے پڑھاتے ایک مزاج بن گیا، اب شریعت کا کوئی مسئلہ ہو میں اس کو محسوس بناکر پیش کرسکتا ہوں۔
       غرض حکیم الاسلام نے فرمایا: شاہ صاحب کوڈیڑھ سو سال پہلے یہ بات محسوس ہوگئی تھی کہ اب عقلیت کا دور ختم ہونے والا ہے اور سائنس کا دور شروع ہونے والا ہے، جس میں معنویات کومحسوس بناکر پیش کرنا ہوگا، اس لئے شاہ صاحب نے حجۃ اللہلکھی تاکہ دو سو سال کے بعد جب یہ دور شروع ہو، علماء امت اس قابل ہوجائیں کہ وہ ہر مسئلہ کو محسوسات کے دائرہ میں لاکر افہام وتفہیم کرسکیں۔
      مشکل کتاب کو سمجھنے کا طریقہ
      اگر آپ کوئی گہرا فن اور گہری کتاب سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ شاہ صاحب نے یہ بتایا ہے کہ پہلے اس کے آلات جمع کریں، کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لئے جو ابتدائی معلومات ضروری ہوتی ہیں ان کوجمع کریں، پھر تدریجاً آگے بڑھیں، ایک دم چھلانگ نہ لگائیں، مثلاً: حجۃ اللہ میں ایک مضمون ہے، اس میں ہے کہ واقعات سلسلۂ مُعِدَّات ہیں، اس کو سمجھنے کے لئے پہلے مُعِدّ کو سمجھنا پڑے گا، اس کے بغیر یہ بات نہیں سمجھ سکتے، غور کریں کہ یہ کس فن کی بات ہے؟ یہ منطق کی اصطلاح ہے، منطق کی کتابوں میں معدّ وہ چیز ہے جو موجود ہوکر فنا ہوجائے تب اگلا فرد وجود میں آتا ہے، جیسے میرا ایک قدم وجود میں آیا، پھر دوسرا قدم کب وجود میں آئے گا؟ جب میں پچھلا پیر اٹھاکر آگے رکھونگا تب دوسرا قدم وجود میں آئے گا،اب پچھلا قدم ختم ہوگیا، اور دوسرا قدم وجود میں آگیا، اسی طرح اعداد (گنتی) بھی سلسلہ معدات ہیں ، چھ میں ایک ملائیں تب سات بنیں گے، اب چھ ختم ہوگئے اور سات وجود میں آگئے، اسی طرح سات میں ایک ملایا تو آٹھ بنا، اب سات ختم ہوگیا اور آٹھ وجود میں آگیا۔
       غرض لفظ یا اصطلاح جس فن کی ہے اس فن میں جاکر جب تک معنی متعین نہیں کریں گے پلّے کچھ نہیں پڑے گا، اس لئے شاہ صاحب نے فرمایا کہ جب کوئی مشکل مضمون ہو یا مشکل کتاب ہو اور آپ اس کوسمجھنا چاہیں تو پہلے اس کے آلات مہیا کریں، جو تمہیدی باتیں ضروری ہیں ان کو پہلے حاصل کریں، پھر تدریجاً آگے بڑھیں۔ تدریج سے ذہن میں آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، او ر رفتہ رفتہ آدمی مجتہد بن جاتا ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ رات میں سوتے نہیں تھے، سوچتے تھے اور جب کوئی دقیق مسئلہ حل ہوتا تو صحن میں ناچتے تھے، اور خوش ہوکر فرماتے: بادشاہوں کے لڑکوں کو یہ نعمت کہاں حاصل ! امین اور مامون کو یہ نعمت کہاں حاصل ! بہت خوش ہوتے۔
      معلوم ہوا کہ سوچنا بھی ایک مطالعہ ہے، حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمہ اللہ جب درس کے لئے آتے تو پہلے وضو کرتے، عمامہ باندھتے، پھر تپائی پر رکھ کر ترمذی شریف کھولتے اور جو ابواب پڑھانے ہوتے ان کو ایک نظر دیکھتے، پھر کتاب بند کرکے دس منٹ سوچتے، پھر پڑھانے کے لئے چل دیتے، یہ سر جھکاکر بیٹھنا ہی ان کا مطالعہ تھا کیونکہ مواد تو سارا دماغ میں اکٹھا ہوتا ہی تھا، صرف ترتیب دینے کی ضرورت تھی کہ مسئلہ کو کس انداز سے بیان کرنا ہے۔
     شاہ صاحب نے حجۃاللہ کے مقدمہ میں لکھا ہے:وکذلک کلُّ مسلم یَتَرَائٰ  بادیَ الرأی: أن البحث عنہ مستحیل، ولااِ حاطةَ بہ ممتنعة، ثم اِذا ارْتِیْضَ بِأَدَوَاتِہِ، وَتُدُرِّجَ فی فہم مقدِّماتہ حصل التمکُّن فیہ، وتیسر تأسیس مبانیہ، وتفریعُ فروعہ، وزویہ: اسی طرح ہر فن سرسری نظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے محبت کرنا ممکن ہے، اور اس کا احاطہ کرنا محال ہے، مگر جب اس کے اوزاروں کے ذریعہ اس کو سدھالیا جاتا ہے، اور آہستہ آہستہ اس کی تمہیدی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس میں جماؤ حاصل ہوجاتا ہے، اور اس کی بنیادوں کو قائم کرنا اور اس کی جزئیات ومتعلقات کی تفریع کرنا آسان ہوجاتا ہے( رحمۃاللہ ١:١٢١)
      حجۃاللہ مشکل کیوں ہے؟
      اور حجۃ اللہ دو وجہ سے مشکل ہے، ایک: اس میں ایجاز( اختصار) ہے اور جب بھی کلام میں ایجاز ہوتا ہے بات مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ دوم: مضامین بہت بلند ہیں، میں نے رحمة اللہ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ شاہ صاحب عرش پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ ان مضامین کو فرش پر لانا مشکل ہوتا ہے، جب تک ان کی اصطلاحات حل نہ کی جائیں، ان کے انداز بیان سے واقفیت پیدا نہ کی جائے مضمون سمجھ میں نہیں آتا۔
    حجۃ اللہ کیسے سمجھیں؟
     مگر اب حجۃ اللہ کا سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے، آپ رحمۃ اللہ الواسعہ لے کر بیٹھیں اور ایک مقدار متعین کریں کہ مجھے روزانہ ایک مسئلہ پڑھنا ہے یا تین صفحے پڑھنے ہیں، اس سے زیادہ نہ پڑھیں، اس کو اپنی کاپی میں دوسرے لفظوں میں لکھیں، لمبے مضمون کو مختصر کریں اور چوبیس گھنٹے اس مضمون کودماغ میں گھمائیں، ساتھیوں سے مذاکرہ کا موقعہ ملے تو مذاکرہ کریں، ساتھی نہ ملیں تو چند تپائیاں سامنے رکھ کر تقریر کریں، اس سے مضمون یاد بھی ہوگا اور ذہن میں بھی بیٹھے گا۔
       البتہ حجۃ اللہ کی دوقسمیں ہیں: قسم اول میں سات مباحث ہیں اور ہر مبحث میں متعدد ابواب ہیں، اگر کوئی ان سات مباحث پر قابو پالے تو شریعت کا ہر مسئلہ حل کرسکتا ہے، ہر مسئلہ کا راز اور حکمت پاسکتا ہے۔ حجۃ اللہمیں اُس مسئلہ کا ہونا ضروری نہیں،اور قسم ثانی میں حضرت نے مشکوٰة شریف کو سامنے رکھ کر اسی ترتیب سے حدیثیں لکھی ہیں اور حدیثوں میں جو حکم آیا ہے اس کا راز بیان کیا ہے اس کی حکمت بیان کی ہے۔
       قسم ثانی کا سمجھنا آسان ہے، کہیں کہیں کوئی بات مشکل آجاتی ہے، ورنہ وہ بہت آسان ہے، ہر پڑھا لکھا آدمی اس کو سمجھ سکتا ہے، پس جو حضرات حجۃ اللہکا مطالعہ کریں وہ پہلے قسم ثانی پڑھیں، جب اس سے فارغ ہوں تو قسم اول شروع کریں، رحمة اللہ میں میں نے اس کی ایک مثال دی ہے۔ ایک ماہر باورچی ہے، اس کے پاس پلاؤ پکانے کا ایک فارمولہ ہے، مگر مجمع میں باورچی اس فارمولہ کو بتائے تو ضروری نہیں کہ ہر آدمی اس فارمولہ کے مطابق پلاؤ پکالے، کوئی کامیاب ہوسکتا ہے اور کوئی ناکام۔ لیکن اگر وہ باروچی پلاؤ پکاکر سب کے سامنے پلیٹوں میں کھاناسجادے تو پھر کیا دیر ہے؟ ہاتھ بڑھائے اور کھانا شروع کرے۔ پہلی قسم میں حضرت نے اصول وضوابط بیان کئے ہیں اور اصول وضوابط ہمیشہ نظری ہوتے ہیں اور نظری  چیزوں کا سمجھنا دشوار ہوتا ہے اس لئے قسم اول کا سمجھنا دشوار ہے، اور قسم ثانی میں حدیثوں کو سامنے رکھ کر ان میں جو احکام آئے ہیں ان کے اسرار وحکم بیان کئے ہیں، یعنی اصول وضوابط کے مطابق حدیث میں مذکور احکام کے اسرار وحکم بیان کرکے کھانا سامنے کردیا ہے، اب کیا کمی ہے آگے بڑھو اور خوانِ نعمت سے فائدہ اٹھاؤ۔
       حجۃ اللہ کے ہم پلہ کوئی کتاب نہیں
       حجۃ اللہ کے انداز پر اور بھی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن حجۃ اللہ کے ہم پلہ کوئی کتاب نہیں، حضرت تھانوی  کی المصالح العقلیۃ فی الأحکام النقلیۃہے، اس میں صرف احکام کی حکمتیں ہیں کہ یہ حکم کیوں ہے؟ وضوء میں چار فرض کیوں ہیں؟ اطراف کیوں دھوئے جاتے ہیں؟ لیکن اس میں کوئی ایسا فارمولہ نہیں ہے کہ وہ ہم جان لیں تو خود شریعت کے احکام کی حکمت نکال لیں، اور حجۃ اللہ میں آدھی کتاب میں ایسے ہی فارمولے بیان کئے ہیں ۔ علامہ حسین جسر رحمہ اللہ نے بھی عقائد پر ایک کتاب لکھی ہے، انھوں نے بھی احکام کی علتیں بیان کی ہیں، مگر فارمولہ بیان نہیں کیا، الغرض جو بھی کتاب اس باب میں لکھی گئی ہے وہ حجۃ اللہ کے ہم پلہ نہیں، حجۃ اللہ پہلی اور آخری کتاب ہے، اس میں جہاں احکام کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں وہیں اصول اور ضابطے بھی بیان کئے گئے ہیں۔
      نظام الاوقات بنانا ضروری ہے
     مگرہمارے فضلاء پر ایسا احساس کمتری چھایا ہوا ہے کہ وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے، بھائیو! کب تک سننے کے محتاج رہوگے، پڑھنا شروع کرو، دس سال تک کانوں سے علم حاصل کیا اب آنکھوں کو استعمال کرو، اور اس کے ذریعہ علم حاصل کرو، کہتے ہیں: اجی وقت نہیں، فرصت نہیں، بھائی! جب آپ چاہیں گے وقت بھی نکل آئے گا اور فرصت بھی مل جائے گی۔ اپنا حساب کرو، ہم کم از کم چار گھنٹے فضولیات میں ضائع کرتے ہیں، اِدھر کھڑے ہیں ،اُدھرباتیں کررہے ہیں، خواہ مخواہ مس کال ماررہے ہیں، پیسہ بھی برباد کررہے ہیں اور وقت بھی ضائع کررہے ہیں، ہمیں چاہئے کہ وقت کی حفاظت کریں، وقت کو بچاکر پڑھنے کا نظام بنائیں۔ نظام الاوقات بنائے بغیر کچھ نہیں ہوگا، طے کرلیں کہ فلاں وقت یہ کرنا ہے اور فلاں وقت وہ، رات کو دس بجے سے بارہ بجے تک ضرور پڑھنا ہے، اور یہ پڑھنا ہے ، اور اس طرح پڑھنا ہے، کچھ بھی ہوجائے پڑھنا ہے۔ حضرت تھانوی قدس سرہ کا واقعہ ہے: ایک مرتبہ ان کے استاذ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب تھانہ بھون آئے، حضرت تھانوی بہت خوش ہوئے اور زور کی دعوت کی، کھانے کے بعد مجلس میں بیٹھے۔ حضرت تھانوی نے عرض کیا: حضرت ! اس وقت میرا بیان القرآن لکھنے کا معمول ہے اگر اجازت ہو تو میں لکھنے کے لئے چلا جاؤں؟ حضرت نے فرمایا: بالکل جاؤ اور لکھو! حضرت تھانوی چلے گئے، اور دس منٹ کے بعد آگئے، حضرت نے پوچھا: کیوں آگئے؟ کہنے لگے: حضرت! میں نے اپنا معمول پورا کرلیا، اور چونکہ آپ تشریف فرما ہیں اس لئے لکھنے کو جی نہیں چاہتا، دس منٹ لکھا اور معمول پورا کرلیا، اس طرح آدمی نظام الاوقات بنائے تو کامیابی حاصل ہوتی ہے، یہ نہیں کہ کسی دن موقع ملا تو پڑھ لیا اور سات دن ناغہ کردیا۔ کیونکہ آٹھویں دن پڑھنے کو جی نہیں چاہے گا، اس لئے ایک وقت مقرر کرکے مطالعہ میں لگ جاؤ اور پابندی سے لگے رہو تو استعداد بڑھے گی، دماغ میں معلومات جمع ہونگی، اور رفتہ رفتہ دین کا علم پکا ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حجۃاللہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
وآخر دعوانا أن الحمدﷲ رب العالمین۔

اب تک کے مہربانان کرام