Monday, October 31, 2011

حجۃ اللہ کو کیسے سمجھیں


 خطبۂ مسنونہ کے بعد:(اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الِاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الأَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ)                
 واجب الاحترام علمائے کرام! مجھے آج تقریر کے لئے موضوع یہ دیا گیا ہے کہ امام الہند حضرت اقدس شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ کی مشہور زمانہ، مایۂ ناز کتاب: حجۃ اﷲ البالغۃکے سلسلہ میں کچھ باتیں عرض کروں۔
     آپ سبھی حضرات جانتے ہیں کہ حجۃ اللہ البالغہ ایک دقیق کتاب ہے، مگر دقیق ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا، اس کو حل نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کوسمجھنے کے لئے محنت کرنی پڑے گی۔ عام کتابوں کے پڑھنے اور سمجھنے کے لئے جتنی محنت درکار ہوتی ہے اتنی محنت اس کتاب کے لئے کافی نہیں۔ اس کے لئے محنت شاقہ برداشت کرنی پڑے گی، جبھی کتاب سمجھ میں آئے گی۔
      جیسے ایک حدیث میں ہے:أَرْبَعُُ فِیْ أُمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجاھلِیَّةِ، لَنْ یَّدَعَھُنَّ الناسُ، النِّیاحةُ، والطعنُ فی الأَحْساب، والْعَدْویٰ: أَجْرَبَ بعیر فأجرب مأةَ بعیرٍ، مَنْ أَجْرَبَ البعیرَ الأولَّ؟ وَالأَنْوَاءُ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ کِذَا وَکَذَا( ترمذی شریف حدیث :٨٨٢)
      ترجمہ: میری امت میں جاہلیت کی چار چیزیں ایسی ہیں جنھیں لوگ ہرگز نہیں چھوڑ یں گے (١) نوحہ کرنا، مرنے والے کا ماتم کرنا(٢) خاندان پر اعتراض کرنا (٣) یہ اعتقاد رکھنا کہ ایک کی بیماری دوسرے کو لگتی ہے، لوگ کہتے ہیں: ایک اونٹ کو کھجلی ہوئی تو سب کو ہوگئی، ان سے پوچھو: پہلے اونٹ کو کھجلی کہاں سے لگی (٤)نچھترّوں کا عقیدہ کہ فلاں نچھتر لگا تو بارش ہوئی۔
     اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب امت ان باتوں کو نہیں چھوڑے گی تو یہ باتیں چلنے دی جائیں، ان کے ازالے کے لئے محنت نہ کی جائے، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مصلحین امت ان چار باتوں کو امت میں سے نکالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں، کسی بھی طریقے سے ان چار باتوں کو امت میں سے ختم کریں، جیسے کپڑے پر داغ لگ جاتا ہے تو دھوتے ہیں اور چائے گرجاتی ہے تو اس کو ہر ممکن طریقہ سے زائل کرتے ہیں،اسی طرح یہ چار خرابیاں امت میں ایسی ہیں جو آسانی سے نکلنے والی نہیں، پس مصلحین امت کی ذمہ داری ہے کہ انکے پیچھے خصوصی محنت کریں، اور کسی بھی طرح امت میں سے ان چار باتوں کو نکالیں ۔
     اسی طرح میں عرض کرتا ہوں کہ حجۃ اللہ البالغہ دقیق کتاب ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو یہ کہہ کر چھوڑ دو کہ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں! ارے بھائی! انسان نے لکھی ہے، ہم ایسی کتاب لکھ نہیں سکتے تو سمجھ تو سکتے ہیں، مگر عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ سپر ڈال دیتے ہیں، ہمت ہار جاتے ہیں، کہتے ہیں: یہ کتاب بہت مشکل ہے، چیدہ چیدہ حضرات ہی اس کا مطالعہ کرتے ہیں، عام طور پر لوگوں نے اس کو چھوڑ رکھا ہے، پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ موقوف کردیا ہے، اس طرح اس کتاب کا جو عظیم فائدہ تھا اس سے امت محروم ہوگئی، اس لئے میں نے قرآن کی جو پہلی وحی ہے اس کی پانچ آیتیں پڑھی ہیں، پہلے یہ پانچ آیتیں سمجھ لی جائیں تو بات آگے بڑھائی جائے گی۔
     پڑھنے کی اہمیت
     قرآنِ کریم کی پہلی وحی میں دو اقرأ ہیں، ایک: ناخواندہ کا اقرأ ہے اور ایک: خواندہ کا، ناخواندہ کے اقرأ کی آخری حد ہے، مگر خواندہ کا اقرأ غیر محدود ہے، زندگی کے آخری سانس تک پڑھنا چاہئے۔ جب یہ دو اقرأ جمع ہوں گے تبھی قلعہ فتح ہوگا، اگر کسی نے ایک اقرأ پر اکتفا کرلیا تو قلعہ فتح نہیں ہوگا۔
      پہلی وحی کے مخاطب اول کون تھے؟ ناخواندہ لوگ! جو اپنے امی ہونے پر فخر کیا کرتے تھے، ان سے پہلی بات جوکہی گئی ہے اس سے پڑھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ پھر پہلی وحی کا جو پہلا کلمہ ہے اس سے پڑھنے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
     پہلی وحی کا پہلا کلمہ: پڑھ!
     اللہ تعالیٰ کی پہلی وحی کا پہلا کلمہ ہے پڑھ! فرمایا :(اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ): پڑھ اس پروردگار کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا، جس نے تجھے نیست سے ہست کیا، اس کے نام کی مدد لے کر پڑھ وہ ضرور تجھے عالم بنادے گا۔ ذرا تو اپنی پیدائش کے مراحل کو سوچ، تجھے اللہ نے سات مراحل سے گذار کر انسان بنایا ہے، اور یہ ساتوں مراحل بے جان مادہ ہیں، ان سات بے جان مادوں سے گذار کر تجھے اشرف المخلوقات بنایا ، پس جو ہستی بے جان مادوں میں تبدیلیاں کرکے اشرف المخلوقات بناسکتی ہے وہ تجھ جاہل ناخواندہ کو اگر تو اس کے نام کی مدد سے پڑھے تو مختلف مراحل سے گذار کر عالم نہیں بناسکتی؟ ضرور بناسکتی ہے، پس تو پڑھنے کے لئے کمر کس لے۔
    تخلیقِ انسان کے سات مراحل
     تخلیقِ انسان کے سات مراحل کا تذکرہ اٹھارہویں پارے کے پہلے رکوع میں آیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اُن آیات میں انسان کی تخلیق کے سات مراحل کا بیان ہے، وہ سات مراحل کیا ہیں؟ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو مٹی سے بنایا، پھر مٹی کاست( جوہر) نکالا، ایک ہی آیت میں دو مرحلوں کا ذکر ہے: (لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِیْنٍ): مٹی کے جوہر سے ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ مٹی کا جوہر کیا ہے، ہم مٹی سے پیدا ہونے والی غذائیں کھاتے ہیں ، ان غذاؤں سے ہمارے بدن میں خون بنتا ہے، یہ خون مٹی کا سلالہ اور جوہر ہے(ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ): پھر ہم نے اس جوہر کو نطفہ بنایا، یہ تیسرا مرحلہ ہے، ہمارے بدن میں جو خون ہے اس سے خاص جوہر نکالا جاتا ہے، وہ مادہ بنتا ہے، اس مادے کو اللہ تعالیٰ رحم مادر میں پہنچاتے ہیں اور حمل ٹھہر جاتا ہے، حمل ٹھہرنے کے بعد بچہ دانی کا منھ بند ہوجاتا ہے، نہ باہر کی کوئی چیز اندر جاسکتی ہے اور نہ اندر کی کوئی چیز باہر آسکتی ہے، یہی قرار مکین: اطمینان سے نطفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ انسان کی تخلیق کے یہ تین مرحلے ہوئے، مٹی، مٹی کا جوہر اور مادہ۔
      بچہ دانی میں جاکر وہ مادہ چالیس دن میں علقة ( خون بستہ) بن جاتا ہے۔ یہ چوتھا مرحلہ ہے جو بیچ کا مرحلہ ہے، جب سات مرحلے ہیں تو بیچ میں کوئی نہ کوئی مرحلہ ضرور ہوگا، پھر اس کے بعدعلقة:مضغة ( بوٹی ) بنتا ہے پھر اس مضغہ میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھتا ہے۔ یہ کل سات مرحلے ہوئے اور یہ ساتوں مرحلے بے جان مادہ ہیں   ان سات مراحل سے گذار کر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی مخلوق بنادی جس سے بہتر اور اشرف مخلوق کوئی نہیں، بڑی برکت والی ہے وہ ذات جو احسن الخالقین ہے۔
     ان سات مرحلوں میں سے بیچ کے مرحلہ کا ذکر فرماتے ہیں:(خَلَقَ الِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ): اللہ نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا، اس پردروگار کے نام کی مدد سے پڑھ وہ تجھ جاہل ناخواندہ کو عالم بنادے گا۔ یہ پہلا اقرأ ہے جو ناخواندہ کا اقرأ ہے، وہ الف باء سے شروع ہوتا ہے اور اس کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ آدمی میں استعداد پیدا ہوجائے، جب تک استعداد پیدا نہ ہو پڑھتا رہے، دورہ پڑھ کر یہ نہ سمجھ لے کہ میں فارغ ہوگیا۔
     دوسرا  اِقْرَأْ:
      پھر دوسرا اقرأ شروع ہوتا ہے اور غور کرو انداز بیان کیسے بدل رہا ہے، فرمایا: (اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الأَکْرَمُ): پڑھ اورتیرا پروردگار بڑا کریم( سخی) ہے، اس کے یہاں فضل کی کمی نہیں، جتنا پڑھے گا اتنا بڑھے گا۔ وہ تجھے بے حساب علم دے گا۔
     یہ خواندہ کا اقرأ ہے اور اس کی کم سے کم مقدار متعین ہے، مطالعہ کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد یہ مرحلہ شروع ہوتا ہے، اور اس کی آخری حد کوئی نہیں۔ کائنات میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت نانوتوی قدس سرہ نے رسالہ تحذیر الناس میں ایک حدیث لکھی ہے: عُلِّمْتُ علمَ الأولین والآخرین: مجھے اگلوں اور پچھلوں کا علم دیا گیا ہے، پوری کائنات کے پاس جتنا علم ہے اتنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے، ایسی ہستی کو اللہ نے دعا سکھلائی ہے: (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا): آپؐ دعا کیجئے کہ اے اللہ! میرے علم میں اضافہ فرما، اتنا علم رکھنے والا بھی مامور ہے کہ وہ علم میں اضافہ کی دعا کرے، معلوم ہوا کہ علم کی کوئی حد نہیں۔
         اس کے بعد فرماتے ہیں:(الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ) تیرا پروردگار وہ ہے جو قلم کے ذریعہ علم سکھاتا ہے، پہلے استاذ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتا ہے پھر قلم کے ذریعہ یعنی اگلوں نے جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھتا ہے، اس طرح (عَلَّمَ الِاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ): اللہ تعالیٰ انسان کو وہ علوم سکھاتے ہیں جو وہ نہیں جانتا یعنی جو اس نے مدرسہ کی زندگی میں نہیں جانے وہ علوم اب ذاتی مطالعہ سے حاصل کرے گا۔               
      دور تنزل
      مگر اب تنزل کا زمانہ آگیا ہے۔ طلبہ کے پڑھنے میں بھی اور اساتذہ کے پڑھنے میں بھی ، طلبہ استعداد بننے سے پہلے فارغ ہوجاتے ہیں، اور اساتذہ عربی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتے، وہ سمجھتے ہیں کہ اردو شرحوں سے کام چل جائے گا، حالانکہ مصادر اصلیہ کا مطالعہ کئے بغیر علم میں کمال پیدا نہیں ہوسکتا، اس لئے میں نے یہ آیات کریمہ پڑھیں تاکہ ہم اپنی کمی دور کریں، اگر ہم نے اپنی کمی دور کرلی تو پھر ہمیں حجۃ اللہالبالغہ کسی سے پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی ، یہ تو دوسرے اقرأ میں آتی ہے، ہر ایک کو یہ کتاب خود پڑھنی ہے، مگر پڑھے گا وہی جو پہلے مرحلہ کے اقرأ سے کامیاب گذرا ہے، اگر پہلے مرحلہ سے کامیاب نہیں گذرا تو نہ خود مطالعہ کرسکتا ہے نہ اس کو پڑھانے سے کچھ حاصل ہوگا، میں نے یہ کتاب حضرت حکیم الاسلام رحمہ اللہ سے پڑھی ہے۔ حضرت کثیر الاسفار تھے ،صرف چند ابواب ہم نے حضرت سے پڑھے ہیں مگر اس سے کتاب کا اندازہ ہوگیا اور ہم نے طے کرلیا کہ اس کتاب کو حل کرکے چھوڑیں گے الحمد للہ وہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوگیا، کتاب حل کرلی، بلکہ شرح بھی لکھ دی۔
     شاہ صاحب کی دور بینی
     حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت شاہ صاحب  نے مستقبل میں جو محسوسات کا دور شروع ہونے والا تھا اس کو پہلے سے محسوس کرلیا تھا، حضرت شاہ صاحب کا زمانہ عقلیت پسندی کا زمانہ تھا، مگر شاہ صاحب کو یہ احساس ہوگیا تھاکہ آگے محسوسات کا دور آرہا ہے، سائنس کا دور آرہا ہے، ہر بات محسوس کرکے امت کے سامنے پیش کرنی ہوگی۔ اب یہ دور شروع ہوچکا ہے ۔ حضرت شاہ صاحب نے حجۃ اللہ اسی دور کے لئے لکھی ہے، اور اس میں ایسے افکار پیش کئے ہیں جن کی روشنی میں تمام مسائل شرعیہ کو محسوس بناکر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے، یورپ اور امریکہ تو ترقی یافتہ ممالک ہیں، یہاں بچے بھی ہر بات کی وجہ پوچھتے ہیں، ابھی اس نے ہوش کے ناخن بھی نہیں لئے، مگر مسائل شرعیہ کے بارے میں پوچھتا ہے: ایسا کیوں ہے؟ یعنی مسئلہ کو محسوس کرکے سمجھاؤ، تبھی وہ سمجھے گا ورنہ نہیں سمجھے گا۔
     بیت اللہ میں جاکر چھت نہ دیکھنے کی وجہ:
     ٹورنٹو کی مسجد دارالسلام میں ایک باپ اپنے بچہ کو لے کر آیا، بچے کی عمر مشکل سے دس گیارہ سال رہی ہوگی، اس کا باپ کہنے لگا: اس بچہ کا ایک سوال ہے، آپ اس کا جواب دیں۔ میں نے پوچھا: پیارے ! تیرا کیا سوال ہے؟ اس نے کہا: میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ جو شخص کعبہ شریف کے اندر جائے وہ چھت کی طرف نہ دیکھے، ایسا کیوں ہے؟ چھت کی طرف کیوں نہیں دیکھ سکتا؟ میں نے اس سے پوچھا: کعبہ شریف کے اندر کیوں جاتے ہیں؟ وہ بچہ تھا کیا جواب دیتا! اس لئے میں نے اسے بتایا کہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہیں، عبادت کرنے کے لئے جاتے ہیں، پھر میں نے اس سے پوچھا: پرانی عمارتیں( آثار قدیمہ) دیکھنے کے لئے اسکول کے بچے کیوں جاتے ہیں؟ اس نے کہا: عمارت دیکھنے کے لئے جاتے ہیں کہ کیسی ہے؟ کس چیز سے بنی ہے؟ اب میں نے اس کو سمجھایا کہ کعبہ شریف تمام عمارتوں سے پرانی عمارت ہے، مگر اس کے اندر جانا آثار قدیمہ دیکھنے کے لئے جانا نہیں ہے، اندر جانا عبادت کے لئے ہے، اللہ جتنی توفیق دیں نماز پڑھنی چاہئے اور نماز پڑھ کر نکل آنا چاہئے،دیواریں دیکھنا، چھت دیکھنا وغیرہ تو آثار ِ قدیمہ کی عمارتوں میں ہوتا ہے، اور دیوار دیکھنے کی ممانعت اس لئے نہیں کی کہ اس پر تو ضرور ہی نظر پڑے گی، اس سے نظر بچانہیں سکتے، اور چھت کو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ بچہ سمجھ گیا، اور مطمئن ہوکر چلاگیا، کیونکہ میں نے محسوس بناکر بات پیش کی تھی، اس لئے وہ آسانی سے سمجھ گیا۔
      اسی طرح ایک نوجوان میرے پاس آیا، یہ بھی ٹورنٹو کا واقعہ ہے، اس نے سوال کیا: دو نمازیں:ظہر اور عصر خاموش کیوں ہیں؟ اور تین نمازیں: مغرب، عشاء اور فجر جہری کیوں ہیں؟ یہ ایک دقیق مسئلہ تھا، ہمارے طلبہ بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے، وہ تو کالج میں پڑھنے والا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: آپ کی شادی ہوئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے کہا: تم میاں بیوی گپ کب کرتے ہو؟ دن میں یا رات میں؟ اس نے کہا: رات میں، دن میں تو ضروری باتیں کرتے ہیں، میں نے کہا: آپ کے سوال کا یہی جواب ہے، دن کو اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ زیادہ باتیں کرنے کو جی نہیں چاہتا، اسی لئے سنیما، ٹھیٹر اور گانے بجانے کے پروگرام رات میں ہوتے ہیں کیونکہ رات کی فطرت میں اللہ نے انبساط رکھا ہے اوردن کی فطرت میں انقباض اور جب طبیعت میں انقباض ہو تا ہے تو نہ سنانے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو، اس لئے دن کی نماز یںخاموش ہیں، اور رات میں طبیعت میں انبساط ہوتا ہے سنانے کو بھی جی چاہتا ہے اور سننے کو بھی، اس لئے رات کی نمازیں جہری ہیں۔
      پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دن کی فطرت میں انقباض اور رات کی فطرت میں انبساط کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دن کو اللہ تعالیٰ نے معاش کا وقت بنایا ہے، اگر اس میں انبساط رکھا جاتا تو آدمی ٹی وی دیکھتا رہتا ، گاتا بجاتا رہتا، بیوی سے گپ کرتا رہتا۔ نہ جوب (کام) پر جاتا نہ شوپ( دوکان) پر، اس لئے اس میں انقباض رکھا تاکہ آدمی صبح اٹھ کر نہا دھو کر نوکری پر پہنچ جائے یا دوکان کھول کر بیٹھ جائے، اور رات میں کوئی دھندا نہیں ، وہ سونے کے لئے ہے، اس لئے رات میں انبساط رکھا۔ اور شریعت نے انقباض وانبساط کا احکام میں لحاظ رکھا ، اسی لئے دن کی نمازوں کو سری اور رات کی نمازوں کو جہری کردیا۔
       اس نے سوال کیا: پھر جمعہ اور عیدین میں جہری قرأت کیوں ہے؟ میں نے اس سے پوچھا: آپ کے یہاں روز زفاف ہوتا ہے یا نہیں؟ شادی کے بعد رخصی دن میں عمل میں آتی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا: دن میں بھی عمل میں آتی ہے (یورپ اور امریکہ میں دن میں بھی رخصتی ہوتی ہے) میں نے کہا: جب رخصتی دن میں ہو اور روز ِ زفاف ہو تو پہلی ملاقات میں میاں بیوی گپ کرتے ہیں یا نہیں؟ اس نے کہا: کرتے ہیں، میں نے کہا: یہی آپ کے سوال کا جواب ہے، اس نے کہا: میں سمجھا نہیں۔ میں نے کہا: یہ موقع کی بات ہے اور خاص موقعوں کے احکام الگ ہوتے ہیں، جمعہ کے دن اورعید کے دن آدمی نہاتا ہے، نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنتا ہے، خوشبو لگاتا ہے اور بڑے اجتماع میں پہنچتا ہے۔ ایسے موقعہ پر طبیعت میں انبساط پیدا ہوجاتا ہے، اس لئے قرآن زور سے پڑھا جاتا ہے ۔
      یہ دقیق ترین مسئلہ تھا مگر میں نے اس کو محسوس بنادیا تو اس کی سمجھ میں آگیا، یہ سب حجةاللہ کی برکت ہے، حجۃ اللہمیں یہ مسئلہ نہیں آیا، مگر پڑھتے پڑھاتے ایک مزاج بن گیا، اب شریعت کا کوئی مسئلہ ہو میں اس کو محسوس بناکر پیش کرسکتا ہوں۔
       غرض حکیم الاسلام نے فرمایا: شاہ صاحب کوڈیڑھ سو سال پہلے یہ بات محسوس ہوگئی تھی کہ اب عقلیت کا دور ختم ہونے والا ہے اور سائنس کا دور شروع ہونے والا ہے، جس میں معنویات کومحسوس بناکر پیش کرنا ہوگا، اس لئے شاہ صاحب نے حجۃ اللہلکھی تاکہ دو سو سال کے بعد جب یہ دور شروع ہو، علماء امت اس قابل ہوجائیں کہ وہ ہر مسئلہ کو محسوسات کے دائرہ میں لاکر افہام وتفہیم کرسکیں۔
      مشکل کتاب کو سمجھنے کا طریقہ
      اگر آپ کوئی گہرا فن اور گہری کتاب سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ شاہ صاحب نے یہ بتایا ہے کہ پہلے اس کے آلات جمع کریں، کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لئے جو ابتدائی معلومات ضروری ہوتی ہیں ان کوجمع کریں، پھر تدریجاً آگے بڑھیں، ایک دم چھلانگ نہ لگائیں، مثلاً: حجۃ اللہ میں ایک مضمون ہے، اس میں ہے کہ واقعات سلسلۂ مُعِدَّات ہیں، اس کو سمجھنے کے لئے پہلے مُعِدّ کو سمجھنا پڑے گا، اس کے بغیر یہ بات نہیں سمجھ سکتے، غور کریں کہ یہ کس فن کی بات ہے؟ یہ منطق کی اصطلاح ہے، منطق کی کتابوں میں معدّ وہ چیز ہے جو موجود ہوکر فنا ہوجائے تب اگلا فرد وجود میں آتا ہے، جیسے میرا ایک قدم وجود میں آیا، پھر دوسرا قدم کب وجود میں آئے گا؟ جب میں پچھلا پیر اٹھاکر آگے رکھونگا تب دوسرا قدم وجود میں آئے گا،اب پچھلا قدم ختم ہوگیا، اور دوسرا قدم وجود میں آگیا، اسی طرح اعداد (گنتی) بھی سلسلہ معدات ہیں ، چھ میں ایک ملائیں تب سات بنیں گے، اب چھ ختم ہوگئے اور سات وجود میں آگئے، اسی طرح سات میں ایک ملایا تو آٹھ بنا، اب سات ختم ہوگیا اور آٹھ وجود میں آگیا۔
       غرض لفظ یا اصطلاح جس فن کی ہے اس فن میں جاکر جب تک معنی متعین نہیں کریں گے پلّے کچھ نہیں پڑے گا، اس لئے شاہ صاحب نے فرمایا کہ جب کوئی مشکل مضمون ہو یا مشکل کتاب ہو اور آپ اس کوسمجھنا چاہیں تو پہلے اس کے آلات مہیا کریں، جو تمہیدی باتیں ضروری ہیں ان کو پہلے حاصل کریں، پھر تدریجاً آگے بڑھیں۔ تدریج سے ذہن میں آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، او ر رفتہ رفتہ آدمی مجتہد بن جاتا ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ رات میں سوتے نہیں تھے، سوچتے تھے اور جب کوئی دقیق مسئلہ حل ہوتا تو صحن میں ناچتے تھے، اور خوش ہوکر فرماتے: بادشاہوں کے لڑکوں کو یہ نعمت کہاں حاصل ! امین اور مامون کو یہ نعمت کہاں حاصل ! بہت خوش ہوتے۔
      معلوم ہوا کہ سوچنا بھی ایک مطالعہ ہے، حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمہ اللہ جب درس کے لئے آتے تو پہلے وضو کرتے، عمامہ باندھتے، پھر تپائی پر رکھ کر ترمذی شریف کھولتے اور جو ابواب پڑھانے ہوتے ان کو ایک نظر دیکھتے، پھر کتاب بند کرکے دس منٹ سوچتے، پھر پڑھانے کے لئے چل دیتے، یہ سر جھکاکر بیٹھنا ہی ان کا مطالعہ تھا کیونکہ مواد تو سارا دماغ میں اکٹھا ہوتا ہی تھا، صرف ترتیب دینے کی ضرورت تھی کہ مسئلہ کو کس انداز سے بیان کرنا ہے۔
     شاہ صاحب نے حجۃاللہ کے مقدمہ میں لکھا ہے:وکذلک کلُّ مسلم یَتَرَائٰ  بادیَ الرأی: أن البحث عنہ مستحیل، ولااِ حاطةَ بہ ممتنعة، ثم اِذا ارْتِیْضَ بِأَدَوَاتِہِ، وَتُدُرِّجَ فی فہم مقدِّماتہ حصل التمکُّن فیہ، وتیسر تأسیس مبانیہ، وتفریعُ فروعہ، وزویہ: اسی طرح ہر فن سرسری نظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے محبت کرنا ممکن ہے، اور اس کا احاطہ کرنا محال ہے، مگر جب اس کے اوزاروں کے ذریعہ اس کو سدھالیا جاتا ہے، اور آہستہ آہستہ اس کی تمہیدی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس میں جماؤ حاصل ہوجاتا ہے، اور اس کی بنیادوں کو قائم کرنا اور اس کی جزئیات ومتعلقات کی تفریع کرنا آسان ہوجاتا ہے( رحمۃاللہ ١:١٢١)
      حجۃاللہ مشکل کیوں ہے؟
      اور حجۃ اللہ دو وجہ سے مشکل ہے، ایک: اس میں ایجاز( اختصار) ہے اور جب بھی کلام میں ایجاز ہوتا ہے بات مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ دوم: مضامین بہت بلند ہیں، میں نے رحمة اللہ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ شاہ صاحب عرش پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ ان مضامین کو فرش پر لانا مشکل ہوتا ہے، جب تک ان کی اصطلاحات حل نہ کی جائیں، ان کے انداز بیان سے واقفیت پیدا نہ کی جائے مضمون سمجھ میں نہیں آتا۔
    حجۃ اللہ کیسے سمجھیں؟
     مگر اب حجۃ اللہ کا سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے، آپ رحمۃ اللہ الواسعہ لے کر بیٹھیں اور ایک مقدار متعین کریں کہ مجھے روزانہ ایک مسئلہ پڑھنا ہے یا تین صفحے پڑھنے ہیں، اس سے زیادہ نہ پڑھیں، اس کو اپنی کاپی میں دوسرے لفظوں میں لکھیں، لمبے مضمون کو مختصر کریں اور چوبیس گھنٹے اس مضمون کودماغ میں گھمائیں، ساتھیوں سے مذاکرہ کا موقعہ ملے تو مذاکرہ کریں، ساتھی نہ ملیں تو چند تپائیاں سامنے رکھ کر تقریر کریں، اس سے مضمون یاد بھی ہوگا اور ذہن میں بھی بیٹھے گا۔
       البتہ حجۃ اللہ کی دوقسمیں ہیں: قسم اول میں سات مباحث ہیں اور ہر مبحث میں متعدد ابواب ہیں، اگر کوئی ان سات مباحث پر قابو پالے تو شریعت کا ہر مسئلہ حل کرسکتا ہے، ہر مسئلہ کا راز اور حکمت پاسکتا ہے۔ حجۃ اللہمیں اُس مسئلہ کا ہونا ضروری نہیں،اور قسم ثانی میں حضرت نے مشکوٰة شریف کو سامنے رکھ کر اسی ترتیب سے حدیثیں لکھی ہیں اور حدیثوں میں جو حکم آیا ہے اس کا راز بیان کیا ہے اس کی حکمت بیان کی ہے۔
       قسم ثانی کا سمجھنا آسان ہے، کہیں کہیں کوئی بات مشکل آجاتی ہے، ورنہ وہ بہت آسان ہے، ہر پڑھا لکھا آدمی اس کو سمجھ سکتا ہے، پس جو حضرات حجۃ اللہکا مطالعہ کریں وہ پہلے قسم ثانی پڑھیں، جب اس سے فارغ ہوں تو قسم اول شروع کریں، رحمة اللہ میں میں نے اس کی ایک مثال دی ہے۔ ایک ماہر باورچی ہے، اس کے پاس پلاؤ پکانے کا ایک فارمولہ ہے، مگر مجمع میں باورچی اس فارمولہ کو بتائے تو ضروری نہیں کہ ہر آدمی اس فارمولہ کے مطابق پلاؤ پکالے، کوئی کامیاب ہوسکتا ہے اور کوئی ناکام۔ لیکن اگر وہ باروچی پلاؤ پکاکر سب کے سامنے پلیٹوں میں کھاناسجادے تو پھر کیا دیر ہے؟ ہاتھ بڑھائے اور کھانا شروع کرے۔ پہلی قسم میں حضرت نے اصول وضوابط بیان کئے ہیں اور اصول وضوابط ہمیشہ نظری ہوتے ہیں اور نظری  چیزوں کا سمجھنا دشوار ہوتا ہے اس لئے قسم اول کا سمجھنا دشوار ہے، اور قسم ثانی میں حدیثوں کو سامنے رکھ کر ان میں جو احکام آئے ہیں ان کے اسرار وحکم بیان کئے ہیں، یعنی اصول وضوابط کے مطابق حدیث میں مذکور احکام کے اسرار وحکم بیان کرکے کھانا سامنے کردیا ہے، اب کیا کمی ہے آگے بڑھو اور خوانِ نعمت سے فائدہ اٹھاؤ۔
       حجۃ اللہ کے ہم پلہ کوئی کتاب نہیں
       حجۃ اللہ کے انداز پر اور بھی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن حجۃ اللہ کے ہم پلہ کوئی کتاب نہیں، حضرت تھانوی  کی المصالح العقلیۃ فی الأحکام النقلیۃہے، اس میں صرف احکام کی حکمتیں ہیں کہ یہ حکم کیوں ہے؟ وضوء میں چار فرض کیوں ہیں؟ اطراف کیوں دھوئے جاتے ہیں؟ لیکن اس میں کوئی ایسا فارمولہ نہیں ہے کہ وہ ہم جان لیں تو خود شریعت کے احکام کی حکمت نکال لیں، اور حجۃ اللہ میں آدھی کتاب میں ایسے ہی فارمولے بیان کئے ہیں ۔ علامہ حسین جسر رحمہ اللہ نے بھی عقائد پر ایک کتاب لکھی ہے، انھوں نے بھی احکام کی علتیں بیان کی ہیں، مگر فارمولہ بیان نہیں کیا، الغرض جو بھی کتاب اس باب میں لکھی گئی ہے وہ حجۃ اللہ کے ہم پلہ نہیں، حجۃ اللہ پہلی اور آخری کتاب ہے، اس میں جہاں احکام کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں وہیں اصول اور ضابطے بھی بیان کئے گئے ہیں۔
      نظام الاوقات بنانا ضروری ہے
     مگرہمارے فضلاء پر ایسا احساس کمتری چھایا ہوا ہے کہ وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے، بھائیو! کب تک سننے کے محتاج رہوگے، پڑھنا شروع کرو، دس سال تک کانوں سے علم حاصل کیا اب آنکھوں کو استعمال کرو، اور اس کے ذریعہ علم حاصل کرو، کہتے ہیں: اجی وقت نہیں، فرصت نہیں، بھائی! جب آپ چاہیں گے وقت بھی نکل آئے گا اور فرصت بھی مل جائے گی۔ اپنا حساب کرو، ہم کم از کم چار گھنٹے فضولیات میں ضائع کرتے ہیں، اِدھر کھڑے ہیں ،اُدھرباتیں کررہے ہیں، خواہ مخواہ مس کال ماررہے ہیں، پیسہ بھی برباد کررہے ہیں اور وقت بھی ضائع کررہے ہیں، ہمیں چاہئے کہ وقت کی حفاظت کریں، وقت کو بچاکر پڑھنے کا نظام بنائیں۔ نظام الاوقات بنائے بغیر کچھ نہیں ہوگا، طے کرلیں کہ فلاں وقت یہ کرنا ہے اور فلاں وقت وہ، رات کو دس بجے سے بارہ بجے تک ضرور پڑھنا ہے، اور یہ پڑھنا ہے ، اور اس طرح پڑھنا ہے، کچھ بھی ہوجائے پڑھنا ہے۔ حضرت تھانوی قدس سرہ کا واقعہ ہے: ایک مرتبہ ان کے استاذ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب تھانہ بھون آئے، حضرت تھانوی بہت خوش ہوئے اور زور کی دعوت کی، کھانے کے بعد مجلس میں بیٹھے۔ حضرت تھانوی نے عرض کیا: حضرت ! اس وقت میرا بیان القرآن لکھنے کا معمول ہے اگر اجازت ہو تو میں لکھنے کے لئے چلا جاؤں؟ حضرت نے فرمایا: بالکل جاؤ اور لکھو! حضرت تھانوی چلے گئے، اور دس منٹ کے بعد آگئے، حضرت نے پوچھا: کیوں آگئے؟ کہنے لگے: حضرت! میں نے اپنا معمول پورا کرلیا، اور چونکہ آپ تشریف فرما ہیں اس لئے لکھنے کو جی نہیں چاہتا، دس منٹ لکھا اور معمول پورا کرلیا، اس طرح آدمی نظام الاوقات بنائے تو کامیابی حاصل ہوتی ہے، یہ نہیں کہ کسی دن موقع ملا تو پڑھ لیا اور سات دن ناغہ کردیا۔ کیونکہ آٹھویں دن پڑھنے کو جی نہیں چاہے گا، اس لئے ایک وقت مقرر کرکے مطالعہ میں لگ جاؤ اور پابندی سے لگے رہو تو استعداد بڑھے گی، دماغ میں معلومات جمع ہونگی، اور رفتہ رفتہ دین کا علم پکا ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حجۃاللہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
وآخر دعوانا أن الحمدﷲ رب العالمین۔

Monday, September 19, 2011

حدیث اور سنت میں فرق

ماخوذ از علمی خطبات 

مسائل میں ہر حدیث حجت نہیں
وہ حدیث حجت ہے جو سنت (معمول بہ) ہے
خطبہ مسنونہ کے بعد:(قُلْ ھذِہِ سَبِیْلِیْ أَدْعُوْا ِلَی اللّٰہِ)وقال النبیُّ صلی اﷲ علیہ وسلم:تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِی۔
 بزرگو اور بھائیو! آج آپ کو ایک مسئلہ سمجھانا ہے، تقریریں تو آپ رمضان بھر سنتے رہے ہیں! مسئلہ یہ ہے کہ حدیث اور سنت میں کیا فرق ہے؟ ایک فرقہ خود کو اہل ِقرآن کہتا ہے، دوسرا خودکو اہل حدیث کہتا ہے، اور ہم خود کو اہل السنہ والجماعۃ کہتے ہیں۔ پس قرآن اور حدیث میں کیا فرق ہے؟ یہ تو ہر کوئی جانتا ہے، لیکن حدیث اور سنت میں کیا فرق ہے؟ یہ فرق لوگ نہیں جانتے، بلکہ لوگوں میں غلط فہمی ہے یا غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے کہ حدیث اور سنت ایک ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ، اس لئے یہ اہم مضمون آج سمجھانا ہے۔
                حدیث اور سنت میں فرق:
حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے بالکل جدا تو نہیں ہیں، یعنی دونوں میں تباین کی نسبت نہیں ہے، مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ دونوں میں تساوی کی نسبت ہو، بلکہ حدیث اور سنت میں عموم وخصوص من وجہٍ کی نسبت ہے، اور جہاں یہ نسبت ہوتی ہے وہاں دو چیزیں کبھی الگ الگ ہوجاتی ہیں، اور کبھی اکٹھاہوجاتی ہیں، جیسے سفید اور جانور میں یہی نسبت ہے، اس لئے کبھی دونوں اکٹھا ہونگے، اور کبھی الگ، سفید کپڑا: سفید ہے، مگر جانور نہیں، کالی بھینس: جانور ہے، مگر سفید نہیں، اور سفید بیل: سفید بھی ہے اور جانور بھی، حدیث اور سنت کے درمیان بھی یہی نسبت ہے، اس لئے کبھی حدیث الگ ہوجاتی ہے، وہ سنت نہیں ہوتی، اور کبھی سنت الگ ہوجاتی ہے، وہ حدیث نہیں ہوتی، اور کبھی دونوں جمع ہوجاتے ہیں، وہ حدیث بھی ہوتی ہے اور سنت بھی۔
 حدیث کی تعریف:
 حدیث: چار چیزوں کا نام ہے:
  ١ـنبی پاکﷺنے زندگی میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے: وہ سب حدیث ہے۔
 ٢ـ آپؐ نے زندگی میں جو بھی کام کیا ہے: وہ حدیث ہے۔
 ٣ـآپﷺنے جن باتوں کو برقرار رکھا ہے: وہ بھی حدیث ہے۔ یعنی کسی مسلمان نے کوئی کام کیا، نبی پاکﷺنے اس کو دیکھا، یا وہ آپؐ کے علم میں آیا اور آپؐ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی بلکہ اس کو برقراررکھا، اس کی تائید فرمائی تو یہ بھی حدیث ہے۔ 
 ٤ـنبی پاکﷺکی صفات یعنی ذاتی حالات بھی حدیث ہیں۔
ان چار چیزوں کا نام حدیث ہے۔ اب ہر ایک کی مثال لیں:
قولی حدیث کی مثال:
بخاری کی پہلی حدیث ہے:اِِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّة: عمل کا نیت سے موازنہ کیا ہوا ہے، عمل نیت کے موافق ہوتا ہے، عبادت کی نیت ہے تو ثواب ملے گا، اور عبادت کی نیت نہیں ہے تو وہ محض عمل ہے، اس پر ثواب کچھ نہیں ملے گا۔
حدیث کا تعلق عبادات سے ہے:
 یہاں کچھ لوگ پوچھتے ہیں: ایک شخص اس لئے چوری کرتا ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کرے، یا لوگ پوچھتے ہیں کہ پیسہ گھر میں تو رکھا نہیں جاسکتا، بینک میں رکھنا ضروری ہے، پس اگر کوئی بینک میں کھاتہ کھلواتا ہے اور کرنٹ اکاونٹ کے بجائے سیونگ اکاونٹ کھلواتا ہے تاکہ جو بینک سے انٹرسٹ ملے اس کو ثواب کی نیت کے بغیر غریبوں کو دیدے تو یہ اچھی نیتیں ہیں۔ اور حدیث میں ہے: انما الأعمال بالنیة: اعمال نیت کے موافق ہوتے ہیں، پس یہ جو بینک سے سود لے کر غریبوں کو دے رہا ہے یا غریبوں کی مدد کی نیت سے چوری کررہا ہے: اس کو ثواب ملنا چاہئے، اور یہ کام جائز ہونے چاہئیں؟
  میں اُسے جواب دیتا ہوں کہ غریبوں کے لئے آپ کو دبلا ہونے کی ضرورت نہیں، غریبوں کے خدا آپ نہیں، غر یبوں کا خدا کوئی اور ہے، اور وہی ان کا رازق ہے۔
  اور مذکورہ حدیث کا دائرہ عبادات تک ہے ، معاصی اس کے دائرہ میں نہیں۔ عبادات میں اگر عبادت کی نیت ہے تو ثواب ملے گا اور اگر عبادت کی نیت نہیں ہے تو ثواب نہیں ملے گا۔
  اور حدیث کا دائرہ عبادات تک ہے: اس کی دلیل اگلا جملہ ہے:وَِنَّمَا لِکُلِّ امْرِأٍ مَّانَویٰ:ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہے، مگر ابھی بات کلیر (واضح) نہیں ہوئی، اس لئے نبیﷺنے ہجرت کی مثال دے کر مضمون واضح فرمایا :
   ہجرت دور اول میں فرض تھی، اور بہت بڑی عبادت تھی، قرآن وحدیث میں اس کے بے شمار فضائل آئے ہیں، حضورﷺنے فرمایا: تین بندے ہجرت کرتے ہیں، وطن چھوڑ کر مدینہ آتے ہیں:
    ایک کیوں آیا ہے؟ اس لئے کہ وہ سچے دل سے مسلمان ہوا ہے، اور اسلام کا درخت ابھی نونہال ہے، اس کی آبیاری کی ضرورت ہے، اس لئے وہ مدینہ آیا ہے تاکہ دعوت وجہاد میں شریک ہو، دین سیکھے، اور ہر طرح دین کی خدمت کرے۔
     دوسرا کیوں آیا ہے؟ وہ اس لئے آیا ہے کہ اس کی گاؤں میں پرچون کی دوکان تھی،اب گاؤں کے لوگ مسلمان ہوکر ہجرت کرکے مدینہ جارہے ہیں، اور گاؤں کی آبادی گھٹ رہی ہے، اس لئے دوکان پھیکی پڑ رہی ہے، اس لئے اس نے سوچا کہ مدینہ منورہ کی آبادی بڑھ رہی ہے، پس میں مدینہ چلا جاؤں اور وہاں دوکان کھولوں تو دوکان خوب چلے گی۔ چنانچہ وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا آیا۔  اور تیسرا کیوں آیا ہے؟ وہ ایک خاص عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے، مگر وہ عورت ہجرت کرکے مدینہ جاچکی ہے، اب وہ سوچتا ہے کہ اگر میں وطن میں رہا تو نکاح نہیں ہوسکتا، چلو میں بھی مدینہ پہنچ جاؤں، اور اس عورت سے راہ ورسم پیدا کروں اور نکاح کرلوں، چنانچہ وہ بھی ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگیا۔
   نبیﷺنے فرمایا: پہلا شخص جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہجرت کی ہے اس کی ہجرت مقبول ہے اور دینی عمل ہے، قرآن وحدیث میں اسی کے فضائل آئے ہیں، اور دوسرے اور تیسرے بندوں کو ہجرت کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، ان کی ہجرت دینی عمل نہیں ہے۔
     پس اگر حدیث کا سیاق پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ حدیث کا دائرہ عبادات تک ہے، معاصی اس کے دائرے میں نہیں ۔
   فعلی حدیث کی مثال:
   جب مسجد ِ نبوی میں منبر رکھا گیا تو نبیﷺنے منبر پر چڑھ کر نماز پڑھائی، سجدہ نیچے کرکے اگلی رکعت میں منبر پر چڑھ جاتے تھے، پھر سلام پھیرنے کے بعد ارشاد فرمایا: صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ أُصَلِّیْ: آپ لوگوں نے جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، اسی طرح نماز پڑھو۔ یہ جو آپؐ نے نماز پڑھ کر دکھائی ہے، یہ فعلی حدیث ہے۔
  تقریر نبوی کی مثال:
   مکہ میں تو پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں، البتہ اسّی کلو میٹر پر طائف ہے، وہاں کھیت ہیں، باغات ہیں، اور ساڑھے چارسو کلو میٹر پر مدینہ منورہ ہے، وہاں بھی باغات اور کھیت ہیں۔ جب نبیﷺہجرت کرکے مدینہ آئے تو مدینہ میں بیع سلم (بدھنی بیع) کا رواج تھا۔ ابھی کھجور پر پھول بھی نہیں آئے ہوتے تھے کہ کھجوریں بیچ دیتے تھے، بھاؤ طے ہوجاتا تھا، مدت طے ہوجاتی تھی، قیمت تاجر اسی وقت دیدیتا تھا، اور باغ والا وقت ِ مقررہ پر کھجوریں دیتا تھا، اس کو بیع سلم کہتے ہیں۔ شریعت کے اصول سے یہ بیع صحیح نہیں، کیونکہ مبیع کا وجود نہیں، جبکہ صحت ِ بیع کے لئے مبیع کا وجود ضروری ہے، اور مبیع: بائع کی ملکیت میں اور بائع کے قبضہ میں ہونا بھی ضروری ہے، نیز اس کا مقدور التسلیم ہونا بھی ضروری ہے، جبھی بیع درست ہوگی، ورنہ نہیں۔ اور کھجوروں کی بیع سلم میں ابھی درختوں پر پھول بھی نہیں آئے، جب کھجوروں کا وجود ہی نہیں تو ملکیت کا کیا سوال؟ اور جب ملکیت نہیں تو قبضہ کا کیا سوال؟ اس لئے شریعت کی اصول سے یہ بیع باطل ہے۔
  جب نبیﷺکے علم میں یہ بیع آئی تو آپؐ نے صحابہ کو اس بیع سے منع نہیں کیا، بلکہ فرمایا:مَنْ أَسْلَمَ مِنْکُمْ فَلْیُسْلِمْ فِیْ کِیْلٍ مَعْلُوْمٍ أَوْ وَزْنٍ مَّعْلُوْمٍ ِلٰی أَجَلٍ مَّعْلُوْمٍ: جب تم سلم کرو تو تمام تفصیلات طے کرلو، پیمانہ یا وزن طے کرلو اور مدت بھی طے کرلو تاکہ آئندہ کوئی نزاع نہ ہو، غرض:حضورنے شرائط تو بڑھائیں، مگر سلم سے منع نہیں کیا۔ پس یہ حدیث بن گئی، اور اس کا نام تقریری حدیث ہے۔
    بیع سلم کے جواز کی حکمت:
     جب اسلام کے اصول سے بیع سلم صحیح نہیں: تو پھر حضورﷺنے اس کو کیوں برقرار رکھا اس کا جواب یہ ہے کہ بیع سلم میں اگرچہ بائع کے پاس مبیع نہیں ہوتی، مگر مارکیٹ میں ہوتی ہے، پس جب مارکیٹ میں مبیع موجود ہے تو اگر اس کے باغ میں مبیع ( کھجوریں) نہ بھی پیدا ہوگی تو وہ مقررہ وقت پر مارکیٹ سے خرید کر دیدے گا۔چنانچہ خاص جگہ کی پیداوار کی سلم میں شرط لگانا درست نہیں، غرض مارکیٹ میں مبیع کے وجود کو بائع کی ملکیت میں موجودمان لیاگیا ہے، اور یہ ایک طرح کا حیلہ ہے۔
     اور یہ حیلہ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ اس میں عظیم فائدہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی سرمایے کے بغیر بڑے سے بڑا کاروبار کھڑا کرسکتا ہے۔
     مثال کے طور پر:ایک شخص کو بنیان بنانے کا کارخانہ قائم کرنا ہے، اس کے لئے لاکھوں روپیوں کی مشینوں کی ضرورت ہوگی، مگر سرمایہ اس کے پاس نہیں ہے، البتہ لوگوں میں اس کا اعتبار ہے، اس نے دوکانداروں سے معاملہ کیا، اس نمبر کا سوت، یہ سائز وغیرہ تمام تفصیلات طے کیں اور قیمت بھی طے کی اور کہا: چھ مہینے کے بعد سپلائی کروں گا اور ہر مہینہ ایک ہزار پیس دوں گا۔ چنانچہ کسی نے دس ہزار پیس خریدے، کسی نے پچاس ہزار، اور اس نے سب سے  پیسے اسی وقت لے لئے، سلم میں ثمن مجلس عقد ہی میں دینا ہوتا ہے۔ پندرہ لاکھ جمع ہوگئے۔ وہ مشینیں لایا، کارخانہ کھڑاکیا اور پروڈکشن شروع ہوگیا، اور مقررہ وقت پر سپلائی شروع کردی۔ سال دو سال میں سب کے پاس مال پہنچ گیا اور اس کا کارخانہ فری ہوگیا۔ یہ بیع سلم کا فائدہ ہے۔ اس لئے شریعت نے اس کو برقرار رکھا ہے، اور آج مشینی دور میں بے شمار چیزوں کا سلم ہوسکتا ہے، ہر وہ چیز جس کی جملہ تفصیلات طے ہوسکتی ہوں، اور اس کا مارکیٹ میں وجود ہو: اس کی بیع سلم درست ہے۔
 اوصاف نبوی کی مثال:
  نبی پاکﷺکے ذاتی حالات اوصاف کہلاتے ہیں، مثلاً: آپؐ کے بال ایسے تھے: نہ بالکل سیدھے تھے، نہ بالکل گھونگھریالے، درمیانی کیفیت لئے ہوئے تھے، سیدھے تھے، مگر کچھ گھونگھریالاپن تھا، دندانِ مبارک ایسے تھے: سامنے کے اوپر کے دانتوں میں ذرا کشادگی تھی، جب آپؐ گفتگو فرماتے تو ان کے درمیان سے ایک نور سا نکلتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ یہ سب حدیثیں ہیں۔
                سنت کے معنی:
   سُنَّة: کے لغوی معنی ہیں: راستہ(الطریق) اور یہ لفظ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے، احادیث میں بھی آیا ہے اور فقہ میں بھی، اور تینوں جگہ معنی الگ الگ ہیں، قرآن میں ہے: (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً): تم اللہ کی سنت کو بدلتا ہوا نہیں پاؤگے۔ اور حدیث میں ہے:تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ: میں نے تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑی ہیں: لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا: جب تک تم ان دونوں کو مضبوط پکڑے رہوگے: ہرگز گمراہ نہیں ہوؤگے، وہ دو چیزیں کیا ہیں: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ: اللہ کی کتاب اور میرا طریقہ۔ اور فقہ میں: سنت مؤکدہ اور سنت ِ غیر مؤکدہ کی اصطلاحیں ہیں۔ غرض تینوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے، اور تینوں جگہ معنی الگ الگ ہیں۔
   فقہ میں سنت: احکام کا ایک درجہ ہے، واجب سے نیچے اور مندوب سے اوپر: ماکان فی مشروعیتہ دون الواجب وفوق المندوب پھر فقہاء نے اس کی دو قسمیں کی ہیں: سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ۔
 قرآنِ کریم میں سنت کے معنی ہیں: اشیائے عالَم میں رکھی ہوئی صلاحتیوں پر مسببات کا متفرع ہونا۔ اس کی تفصیل حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں کی ہے۔ ایک پورا باب اسی کے لئے قائم کیا ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب میں صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں، چنانچہ اسباب سے مسببات پیدا ہوتے ہیں، یہی اللہ کی سنت ہے، جیسے کھجور کی گٹھلی بوئیں گے تو خاص قسم کے پتے نکلیں گے خاص طرح کے پھول آئیں گے، خاص طرح کے پھل آئیں گے، یہی سنت الٰہی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کھجور کی گٹھلی بوئیں اور گیہوں کا پودا نکلے، اللہ سب کچھ کرسکتے ہیں، مگر اللہ نے صلاحیت ایسی ہی ودیعت فرمائی ہے۔ آپ املی کی گٹھلی بوئیں: املی ہی کا درخت اُگے گا یہ اللہ کی سنت ہے اور اللہ کی یہ سنت بدلتی نہیں(وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً) : اللہ نے جس چیز میں جو صلاحیت رکھی ہے وہی صلاحیت بروئے کار آتی ہے۔
 سوال: اگر کوئی کہے کہ اللہ نے آگ میں جلانے کی صلاحیت رکھی ہے، مگر آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہیں جلایا!
 جواب: یہ ہے کہ یہ خرقِ عادت ہے، اللہ تعالیٰ اسباب کی صلاحیت کے خلاف بھی کرتے ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اسباب: اسباب ہیں، خدا نہیں، خدا ان کے اوپر ہے، اور اسباب کی لگام خدا کے ہاتھ میں ہے، جب تک وہ چاہیں گے اسباب کام کریں گے اور جب وہ نہیں چاہیں گے آگ نہیں جلائے گی۔
                 غرض: اللہ نے کائنات کی چیزوں میں جو صلاحیتیں امانت رکھی ہیں، اور ان صلاحیتوں سے جو مسببات وجود میں آتے ہیں: اس کا نام قرآن میں سنت اللہ ہے۔ راستہ۔ اسی کے لئے حدیثوں میں لفظ سنت آیا ہے ، یہ حدیثیں آگے آرہی ہیں۔
                نسخ شریعتوں میں ہوتا ہے ، دین میں نہیں ہوتا
اور نسخ شریعتوں میں ہوتا ہے، بعد کی شریعت سابقہ شریعت کو منسوخ کرتی ہے، البتہ دین تمام نبیوں کا ایک ہے، کیونکہ دین عقائد کا نام ہے اور عقائد بدلتے نہیں، اللہ ایک ہیں : ہیں، اللہ صفاتِ کمالیہ کے ساتھ متصف ہیں : ہیں، اللہ نقائص سے پاک ہیں : ہیں۔ ان میں کیا تبدیلی آسکتی ہے؟ ملائکہ واقعی مخلوق ہیں، قیامت آنی ہے، مرکر دوبارہ زندہ ہونا ہے: یہ سب عقائد ہیں، جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، اس لئے قرآن میں ہے:(اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الِاسْلاَمُ): آدم علیہ السلام سے خاتم النّبیینﷺ تک دین ایک ہے، یہی دین ہمیشہ نازل ہوا ہے، اسی پر جینا ہے اور اسی کو لے کر آخرت میں جانا ہے۔
 لیکن شریعتیں مختلف رہی ہیں، کیونکہ ان میں قوموں کے حالات کا لحاظ کیا گیا ہے،جیسے آدم علیہ السلام کی شریعت میں بہن سے نکاح جائز تھا، کیونکہ اس وقت بہن کے علاوہ اور کوئی عورت نہیں تھی، پس اگر بہن سے نکاح جائز نہیں ہوگا تو نسلِ انسانی کیسے چلے گی؟ پھر جب عورتیں بہت ہوگئیں تو نوح علیہ السلام کی شریعت میں بہن سے نکاح حرام کردیا گیا۔
  بہرحال شریعتوں میں چونکہ زمانے اور لوگوں کے احوال کا لحاظ کیا گیا ہے اس لئے شریعتوں میں نسخ ہوا ہے، آدم علیہ السلام کی شریعت نوح علیہ السلام کی شریعت سے منسوخ ہوئی، پھر نوح علیہ السلام کی شریعت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت سے منسوخ ہوئی، پھر اُن کی شریعت موسی کی شریعت سے منسوخ ہوئی، پھر ان کی شریعت عیسی کی شریعت سے منسوخ ہوئی، آخر میں ہمارے نبیﷺ کی شریعت سے باقی تمام شریعتیں منسوخ ہوئیں۔
                شریعت کے اندر بھی نسخ ہوتا ہے:
اورشریعت کے اندر بھی نسخ ہوتا ہے، یعنی پہلے ایک حکم آتا ہے پھر وہ حکم بدل جاتا ہے، اور دوسرا حکم آتا ہے۔ ایسا نسخ ہماری شریعت میں بھی ہوا ہے، اور اس سلسلے میں قرآنِ کریم کی آیت ہے:(مَانَنْسَخْ مِنْ آیَةٍ أَوْ نُنْسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا): ہم ایک حکم ہٹاکر دوسرا حکم جو بھیجتے ہیں تو وہ دوسرا حکم پہلے حکم کے مانند ہوتا ہے یا اس سے بہتر ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں بھی نسخ ہوا ہے اور حدیثوں میں بھی نسخ ہوا ہے۔
سوال: شریعت میں نسخ کیوں ہوتا ہے؟
جواب:ایک مریض حکیم کے پاس جاتا ہے، اور کہتا ہے: مجھے یہ ہورہا ہے۔ حکیم نسخہ لکھتا ہے اور کہتا ہے: پندرہ دن یہ نسخہ پی کر آؤ۔ دوبارہ آیا، نبض دیکھی، احوال پوچھے، نسخہ نے ٹھیک کام کیا ہے، مگر حکیم نسخہ بدلدیتا ہے، دوسرا نسخہ لکھتا ہے اور کہتا ہے: جاؤ یہ پندرہ دن پی کر آؤ، اس نے پیا اور تیسری مرتبہ آیا، احوال بتائے، نبض دکھائی، اِس نسخہ نے بھی ٹھیک کام کیا ہے،مگر حکیم وہ نسخہ چھوڑ کر تیسرا نسخہ لکھتا ہے، اور کہتا ہے: اب یہ نسخہ شفا ہونے تک پیتے رہو۔ 
اب کوئی کہے کہ حکیم پاگل ہے! پہلے ہی سے یہ آخری نسخہ کیوں نہیں لکھا!حکیم پاگل نہیں، جنابِ عالی پاگل ہیں، حکیم نے پہلا نسخہ مُنْضِجْ  لکھا تھا یعنی جسم کے اندر جو فاسد مواد تھا اس کو پکایا، پھر دوسرا نسخہ مسہل لکھا، اب دست آئے اور فاسد مادہ نکل گیا، پھر تیسرا نسخہ بیماری کا علاج لکھا، اب اس کو پینے سے شفا ہوگی، جب تک فاسد مادے کو نکالیں گے نہیں یہ تیسرا نسخہ کام نہیں کرے گا۔
 دوسری مثال:آپ تانبے کا برتن لے کر قلعی گر کے پاس جاتے ہیں، وہ پہلے برتن کو بھٹی پر رکھتا ہے، اس میں پانی ڈالتا ہے، پانی میں تیزاب ڈالتا ہے، اور چمٹے سے روئی پکڑ کر برتن کو صاف کرتا ہے، پھر اس کو سکھاتا ہے، پھر دوسرے وقت برتن کو آگ پر رکھتا ہے، جب وہ گرم ہوجاتا ہے تو دوچار جگہ قلعی لگاکر، نوشادر بسی ہوئی روئی پھیرتا ہے تو برتن چمک جاتا ہے۔ اگر قلعی گر برتن کے میل کو چھڑائے بغیر قلعی کرے تو قلعی نہیں کھلے گی۔
                یہ مثالیں ہیں، اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح احکام بھیجتے ہیں، جیسے شراب چار مرحلوں میں حرام کی ہے۔
                شراب چار مرحلوں میں حرام ہوئی ہے:
 پہلے مرحلہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی آیت اتاری کہ اس نے لمحۂ فکریہ پیدا کردیا۔ سور ہ نحل میں آیت ہے:(وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِیْلِ وَالأَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا وَّرِزْقًا حَسَنًا):  انگوروں اور کھجوروں کے پھلوں سے تم سَکر بناتے ہو، سَکر: کھجور کی شراب کو کہتے ہیں، اور رزق حسن بناتے ہو،اور انگور سے جو شراب بنتی ہے،جس کو عربی میں خمر کہتے ہیں، اس کا تذکرہ چھوڑ دیا، خمر کا تذکرہ کیوں چھوڑ دیا؟ اس نے صحابہ کے لئے لمحۂ فکریہ پیدا کیا، اور انھوں نے اس سلسلہ میں سوال کیا تو ایک عرصہ کے بعد دوسری آیت نازل ہوئی: (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ، قُلْ فِیْہِمَا ِثْم کَبِیْر وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ): لوگ آپؐ سے خمر اورسٹے کے بارے میں پوچھتے ہیں؟ آپؐ ان سے کہیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور کئی فائدے ہیں،اگر ان میں کوئی فائدہ نہ ہوتا تو لوگ سٹّہ کیوں کھیلتے اورشراب کیوں پیتے! لیکن دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے:(وَاِِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا): اور دونوں میں جو خرابی ہے وہ ان کے فائدوں سے بڑھی ہوئی ہے۔ اس سے ذہن بناکہ خرابی اگرچہ ایک ہے، لیکن وہ سو فائدوں سے بڑھی ہوئی ہے۔ سنار کی سو اور لوہار کی ایک والی بات ہے۔
 یہ ذہن بنانے کے بعد تیسری آیت نازل کی کہ نماز کے اوقات میں شراب نہ پیئو، دوسرے اوقات میں پی سکتے ہو:(یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَتَقْرَبُوْا الصَّلٰوةَ وَأَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتَّی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ): نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ، جب نشہ اتر جائے اور تم جو کچھ منہ سے بول رہے ہو اس کو سمجھنے لگو تب نماز پڑھو۔
  اب ظہر سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے شراب بند کرنی پڑے گی، ظہر کے بعد بھی نہیں پی سکتے، کیونکہ آگے عصر آرہی ہے،عصر کے بعد بھی نہیں پی سکتے، اس لئے کہ آگے مغرب آرہی ہے، مغرب کے بعد بھی نہیں پی سکتے، اس لئے کہ آگے عشاء آرہی ہے۔ اب پینے کے دو ہی وقت بچے، ایک: عشاء کے بعد فجر سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک۔ مگر رات میں کون پیتا ہے؟ اور رات میں اٹھ کر بھی کون پیتا ہے؟ دوسرا وقت ہے: فجر کی نماز کے بعد سے ظہر سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک۔ لیکن اس وقت اگر کوئی پیئے گا تو جوب( کام) اورشوپ( دوکان) پر کون جائے گا؟ یہ تو کمائی کا وقت ہے، اس وقت میں اگر پی کر پڑجائے گا تو کام کیسے چلے گا؟ لیکن پھر بھی ان دو وقتوں میں پینے کی گنجائش رہی، گویا چوبیس گھنٹوں میں سے آدھا وقت کاٹ دیا۔
   ایک عرصے تک اسی طرح چلتا رہا پھر آخر ی حکم آیا: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! خمر اور سٹہ دونوں گندگیاں ہیں، اور شیطانی چرخہ ہیں، شیطان ان کے ذریعہ تمہیں اپنے چکر میں پھنساتا ہے، پس تم ان دونوں سے بچو تاکہ تم کامیاب ہوؤ: (یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْس مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ):چار چیزیں شیطانی چرخہ ہیں: خمر (انگوری شراب) جُوا، بت اور فال کے تیر، ان سے بچو، اگر کامیابی چاہتے ہو۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضوﷺ نے صحابہ کو سنائی تو لوگوں نے شراب نالیوں میں بہادی، گھروں میں شراب کاایک قطرہ بھی نہ رہا۔
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اگر اللہ تعالیٰ پہلے ہی مرحلہ میں یہ آخری آیت نازل فرماتے تو لوگ کہتے: ہم اس پر عمل نہیں کرسکتے! اس لئے ذہن سازی کرکے حرمت کا حکم نازل کیا، چنانچہ لوگوں کے لئے عمل کرنا آسان ہوگیا، اور انھوں نے مٹکے اٹھاکر پھینک دئیے۔ مجھے بتلانا یہ ہے کہ ایک شریعت کے اندر بھی نسخ ہوتا ہے، بعض احکام بالکل اٹھادئیے جاتے ہیں، اور بعض احکام میں تبدیلی کردی جاتی ہے۔
                قرآنِ کریم میں کوئی ایسی آیت نہیں جو اپنے تمام مواد میں منسوخ ہو:
 قرآنِ کریم میں سے جو آیتیں مکمل طور پر منسوخ کردی گئی ہیں: وہ اللہ نے اٹھالی ہیں، یا بھلادی ہیں۔ نسخ کی دو شکلیں ہوتی تھیں: ایک: اللہ تعالیٰ منسوخ آیت اٹھالیتے تھے، دوسری: منسوخ آیت بھلادیتے تھے، حضور اور صحابہ سب اس کو بھول جاتے تھے (سَنُقْرِئُکَ فَلاَ تَنْسٰی ِلاَّ مَاشَاءَ اللّٰہُ): ہم آپؐ کو قرآن پڑھائیں گے، آپؐ اس کا کوئی حرف بھولیں گے نہیں، مگر جس کو منسوخ کرنا ہوتا ہے اس کو اللہ بھلادیتے ہیں۔
آج جو قرآن موجود ہے اس میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو اپنے تمام مواد میں منسوخ ہو، ہاں ایسی آیات ہیں جو بعض احوال میں معمول بہا ہیں، اور بعض احوال میں منسوخ۔ جیسے مؤلفۃ القلوب کے حصے والی آیت موجود ہے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو موقوف کردیا ہے، منسوخ نہیں کیا، چنانچہ اگر کبھی حالات خراب ہوجائیں، اور دورِ اول جیسے حالات پیداہوجائیں تو زمانے کا امیر المؤمنین اس کو پھر جاری کرسکتا ہے، البتہ مفتی صاحب جاری نہیں کرسکتے، مجتہد نہیں کرسکتا، زمانے کے امیر المؤمنین نے موقوف کیا ہے تو زمانے کا امیر المؤمنین ہی اس کو جاری کر سکتا ہے۔
 ایسی اور بھی آیتیں ہیں، جیسے قرآن میں ہے کہ جب موت کا وقت قریب آئے تو والدین کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرو۔ اب یہ حکم نہیں ہے، کیونکہ میراث کے احکام اللہ نے نازل کردئیے ہیں، مگر اب بھی ایسی صورت پیش آسکتی ہے کہ وصیت ضروری ہوجائے، جیسے کسی کو ڈر ہو کہ اس کے بعد بعض ورثاء سب ترکے پر قبضہ کرلیں گے، ماں باپ کو کچھ نہیں دیں گے، یا بعض بیٹے قبضہ کرلیں گے اور بعض کو کچھ نہیں دیں گے تو ایسی صورت میں شریعت کے احکام کے مطابق وصیت نامہ لکھ کر کورٹ میں رجسٹر کرانا ضروری ہے۔ ایسی صورت میں اس آیت پر عمل ہوگا۔
بہرحال قرآنِ کریم میں تو ایسی کوئی آیت نہیں جو اپنے تمام مواد میں منسوخ ہو، ایسی آیتیں یا تو اللہ نے اٹھالی ہیں یا بھلادی ہیں۔
                حدیث کی کتابوں میں منسوخ حدیثیں بھی ہیں:
  لیکن حدیثوں کی ایسی صورت نہیں ہے، پہلے دور کے جو احکام تھے وہ بھی حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، اور بعد میں جو احکام آئے وہ بھی حدیث کی کتابوں میں ہیں۔ پس پہلی قسم کی روایتیں صرف حدیث ہیں، سنت نہیں،اور دوسری قسم کی روایتیں حدیث بھی ہیں اور سنت بھی۔
                وہ روایتیں جو صرف حدیث ہیں، سنت نہیں
  پہلا مادہ افتراقی: تین قسم کی روایتیں صرف حدیث ہیں، سنت نہیں :
   ایک: وہ حدیثیں جو منسوخ ہیں، وہ سنت نہیں ہیں، مسلمانوں کو ان پر نہیں چلنا، بعد میں جو ناسخ احادیث آئی ہیں مسلمانوں کو ان پر چلنا ہے، جیسے حدیث ہے: تَوَضَّئُوْا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ: آگ پرپکی ہوئی چیز کھائی تو وضو ٹوٹ گئی، یہ اعلی درجہ کی صحیح حدیث ہے، مگر بعد میں یہ حکم نہیں رہا، بعد میں نبیﷺ، خلفائے راشدین اور سب صحابہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھاتے تھے، اور وضو کئے بغیر نماز پڑھتے تھے، اس لئے حدیث: توضؤا ممامست النارسنت نہیں ۔
 دوسری مثال: پہلے نماز میں آپس میں باتیں کرتے تھے۔ پہلے طریقہ یہ تھا کہ مسبوق اپنی چھٹی ہوئی نماز پہلے پڑھتا تھا، پھر جماعت میں شامل ہوتا تھا۔ وہ آکر نمازی سے پوچھتا کہ کتنی رکعتیں ہوگئیں؟ وہ بتاتا کہ دو ہوگئیں ، وہ تکبیر تحریمہ کہہ کر چھٹی ہوئی رکعتیں پڑھ کر جماعت میں شامل ہوتا ۔ ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ دیر سے آئے، ان کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ نبیﷺالگ نماز پڑھ رہے ہوں اور وہ اپنی چھٹی ہوئی نماز پڑھیں۔ چنانچہ وہ نیت باندھ کر نماز میں شامل ہوگئے، جب حضورﷺنے سلام پھیرا تو وہ اپنی باقی نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے، حضورلوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور آپؐ نے حضرت معاذ کو نماز پڑھتے دیکھا، نماز کے بعد ان سے پوچھا، انھوں نے جواب دیا : یارسول اللہ! مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں آپؐ سے الگ نماز پڑھوں، اس لئے میں آپؐ کی نماز میں شامل ہوگیا، اور اب میں نے باقی نماز پوری کی، آپؐ نے فرمایا:اِِنَّ مُعَاذًا سَنَّ لَکُمْ سُنَّةً فَاتَّبِعُوْھا: معاذ نے تمہارے لئے ایک طریقہ رائج کیا ہے، پس تم اس طریقہ کی پیروی کرو، چنانچہ اس دن سے مسبوق کی نماز کا طریقہ بدل گیا۔
  غرض: اسلام کے دورِ اول میں نماز میں اس قسم کی ضروری باتیں جائز تھیں، پھر بعد میں یہ آیت نازل ہوئی:(قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ): کھڑے ہوا کرو اللہ کے سامنے عاجز بنے ہوئے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب یہ آیت اتری تو :نُہِیْنَا عَنِ الْکلاَمِ، وَأُمِرْنَا بِالسُّکُوْتِ: ہمیں نماز میں کلام کرنے سے روک دیا گیا اور چپ رہنے کا حکم دیا گیا۔
   غرض: اس دور کی یہ حدیثیں کہ نمازی نماز میں باتیں کرتے تھے: حدیثیں ہیں، اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، مگر وہ سنت نہیں ہیں، مگر اہل حدیث ان پرعمل کرتے ہیں  حرم شریف میں آپ کویہ منظر دیکھنے کو ملے گا کہ ایک عرب شیخ نماز پڑھ رہا ہوگا، موبائل کی گھنٹی بجے گی، وہ جیب سے موبائل نکالے گا، بٹن دباکر نمبر دیکھے گا، پھر کہے گا:أنا فی الصلوة: میں نماز پڑھ رہا ہوں، پھر موبائل جیب میں رکھ لے گا اور نماز پڑھتا رہے گا اور اگر اس سے کچھ کہا جائے تو وہ یہ حدیث پیش کرے گا کہ صحابہ بھی نماز میں باتیں کرتے تھے: میں کیوں نہیں کرسکتا؟
   بہرحال اس طرح کی حدیثیں منسوخ ہوگئی ہیں، مگر وہ حدیث کی کتابوں میںموجود ہیں، پس وہ سنت نہیں ہیں، سنت وہ حکم ہے جو بعد میں آیا ہے، اسی پر مسلمانوں کو چلنا ہے۔ بعد کا حکم کیا ہے؟ حضرت معاویہ بن حکم سُلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے وہ نئے مسلمان ہوئے تھے اور آپؐ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، نماز میں کوئی چھینکا، اس نے اگرچہ الحمد للہ نہیں کہاتھا مگر حضرت معاویہ نے کہا: یرحمک اﷲ! اللہ تجھ پر رحم کرے! ساتھ والے نے ران پر ہاتھ مارا، اُن کو غصہ آیا ،اور کہا: میں اُس کو دعا دے رہا ہوں اور تو مجھے منع کررہاہے! خیر نماز پوری ہوئی، نبیﷺنے ان کوبلاکر فرمایا:اِنَّ ہٰذِہِ الصَّلَوةَ لاَیَصْلُحُ فِیْھا شَیْٔ مِنْ کَلاَمِ النَّاسِ، ِنَّمَا ھیَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَالتَّحْمِیْدُ وَقِرَائَۃُ الْقُرْآن: نماز میں لوگوں کی باتوں کی قطعاً گنجائش نہیں، نماز: قراء ت ِ قرآن، تسبیح، تکبیر اور تحمید کا نام ہے، پس یہی سنت ہے، کلام والی حدیثیں سنت نہیں ، کیونکہ وہ منسوخ ہیں۔
                وہ حدیثیں جو نبیﷺکے ساتھ خاص ہیں:
  دوسری قسم: وہ حدیثیں ہیں جو نبیﷺکے ساتھ خاص ہیں، وہ اگرچہ حدیثیں ہیں، مگر سنت نہیں،جیسے نبیﷺکے لئے نکاح کے باب میں چار کی قید نہیں تھی، چنانچہ نبی ﷺکے نکاح میں نو بیویاں جمع ہوئی ہیں، جب حضور کا یہ فعل ہے تو حدیث ہوئی، مگر سنت نہیں ، امت کو جس راستہ پر چلنا ہے وہ یہ ہے کہ چار ہی بیویاں ایک ساتھ جمع ہوسکتی ہیں۔ اور حضور کا فعل حضور کے ساتھ خاص ہے۔ سورئہ احزاب میں ایک لمبی آیت ہے: (یٰأَیُّہَا النَّبِیّ اِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ): اس میں آگے ہے:(خَالِصَةً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ): یہ حکم خاص آپؐ کے لئے ہے، مؤمنین کے لئے نہیں ہے:(قَدْ عَلِمْنَا مَافَرَضْنَا عَلَیْہِمْ فِیْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ): امت کے لئے ان کی بیویوں اور باندیوں کے سلسلے میں جو احکام ہیں وہ ہمیں معلوم ہیں، وہ ہم نے مقرر کئے ہیں، چنانچہ سورئہ نساء کے شروع میں ہے:(فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَائِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبَاعَ): پس نکاح کرو تم ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں، دو دو سے، تین تین سے اور چار چار سے، امت کے لئے یہی حکم ہے۔
                نکاح میں حضورکے لئے غیر محدود اور امت کے لئے محدود تعداد کیوں ؟
  اورنبیﷺکے لئے غیر محدود نکاح کی اجازت کیوں تھی؟ اور امت کے لئے چار کی تعداد کیوں مقرر کی ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امت جو ایک سے زیادہ نکاح کرے گی وہ اپنی ضرورت سے کرے گی، یا عورت کی ضرورت سے۔عورت کی ضرورت سے: یعنی اس کی کفالت کے لئے، جنگیں ہوتی ہیں، حادثات پیش آتے ہیں، اورحادثات زیادہ تر مردوں کو پیش آتے ہیں، اور جب مسلسل جنگیں ہوتی ہیں تو بہت سی عورتیں بے سہارا رہ جاتی ہیں، اور بے شمار عورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اگر تعدد ازدواج کی اجازت نہیں ہوگی تو مفاسد کا دروازہ کھل جائے گا، اور عورتیں بھوک مری کا شکار ہونگی، یا حکومت کو ان کی کفالت کرنی پڑے گی، کیونکہ عورتوں کے ذمے شریعت نے کمانا نہیں رکھا۔
                اللہ نے عورتوں پر بھاری ذمہ داری نہیں رکھی!
  کیونکہ عورتیں صنف نازک ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر کوئی بھاری ذمہ داری نہیں رکھی، جیسے کماکر کھانا: بھاری ذمہ داری ہے، چنانچہ جب تک عورت کی شادی نہیں ہوتی: باپ کے ذمہ اس کا خرچہ ہے، شادی کے بعد شوہر کے ذمہ ہے، بیوہ ہوگئی تو دوسرا نکاح کرلے، اور اگر بوڑھی ہوگئی کہ دوسرے شوہر کے قابل نہیں رہی تو اولاد کے ذمہ اس کا خرچہ ہے، اور اولاد نہیں ہے تو ذی رحم محرم کے ذمہ اس کا خرچہ ہے اور اگر وہ بھی نہیں ہے تو اسٹیٹ (حکومت) کے ذمہ اس کا خرچہ ہے۔
    حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے زندگی کے آخر میں فرمایا تھا: اگر میں ایک سال  زندہ رہا: تو عراق کی بیوہ عورتیں عمر کے علاوہ کسی کی محتاج نہیں رہیں گی، معلوم نہیں آپ کے ذہن میں کیا پلان تھا! اس فرمانے کے تین دن بعد آپ شہید کردئیے گئے۔ اور آج تک وہ نظام نہیں بن سکا۔
    اس سے معلوم ہوا کہ گورنمنٹ کے ذمہ عورتوں کا خرچہ ہے، عورتوں کے ذمہ کمانا نہیں ہے، کیونکہ کماکر کھانا ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ ایسے اور بھی مسئلے ہیں، مثلاً: عورتوں کو نبوت کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی، کبھی کوئی عورت نبی یا رسول نہیں بنائی گئی، کیونکہ نبوت کا کام  بھاری ذمہ داری ہے۔
   اسی طرح جہاد عورتوں کے ذمہ نہیں رکھا، کیونکہ میدانِ جنگ میں پتے پانی ہوتے ہیں،حتی کہ نفیر عام ہوجائے، اور ہر شخص پر جہاد فرض ہوجائے تب بھی عورتوں پر جہاد فرض نہیں۔
    اسی طرح حکومت چلانا بھی بھاری ذمہ داری ہے، عورت اپنی وضع (نسوانی حالت) باقی رکھتے ہوئے حکومت نہیں چلاسکتی،قتل کے مقدمہ میں عورت کی گواہی معتبر نہیں، کیونکہ گواہی اس وقت دی جاسکتی ہے جب قتل کو گواہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھے، اور عورت قتل کے موقعہ پر باہوش نہیں رہ سکتی، اور قتل کا مشاہدہ نہیں کرسکتی۔
  ان مثالوں سے اندازہ ہوگا کہ کوئی بھی بھاری ذمہ داری عورتوں پر نہیں رکھی گئی، انہی بھاری ذمہ داریوں میں سے کماکر کھانا بھی ہے۔پس اگر کسی جنگ کے نتیجہ میں عورتیں بہت ہوگئیں اور مرد کم رہ گئے تو بیواؤں کا کیا ہوگا؟ ان کی کفالت کا مسئلہ پیدا ہوگا،اور حکومت ان کا بوجھ اٹھائے اس سے بہتر یہ ہے کہ مرد ان سے شادی کرلیں، کیونکہ عورت کو صرف روزی روٹی کی ضرورت نہیں ہوتی، عورت کی ایک نفسانی ضرورت بھی ہے جو نکاح ہی سے پوری ہوسکتی ہے۔
   اسی لئے مرد اتنی ہی عورتیں کرسکتا ہے جن کی نفسانی ضرورت پوری کرسکے، اور یہ بات اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ ایک مرد کتنی عورتوں کی ضرورت پوری کرسکتا ہے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے جمہور کا خیال کرکے چار کی تعداد مقرر کردی ۔
تعدد ازدواج مرد کی بھی ضرورت ہے:
   کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بیوی کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتی ہے کہ شوہر کا اس سے ملنا شوہر کے لئے یا بیوی کے لئے تکلیف دہ ہوتاہے، اور ہر مہینے عورت کو حیض آتا ہے، اور ممکن ہے شوہر قوی الشہوت ہو، اور وہ اتنے دنوں صبر نہ کرسکے، اور حمل کے زمانے میں دو تین مہینے ایسے گذرتے ہیں کہ بیوی کا شوہر کی طرف میلان نہیں رہتا، ایسی حالت میں بیوی سے ملنے میں کیا مزہ! پھر بعض مرد نارمل خواہش والے ہوتے ہیں، اور بعض قوی الشہوت، ان کا ایک بیوی سے کام نہیں چلتا، پس ایسی صورت میں مرد کیا کرے گا؟ اگر ایک ہی بیوی ہوگی تومرد ناجائز تعلقات قائم کرے گا۔ اورجن اقوام کے نزدیک تعدد ازدواج جائز نہیں، وہ لوگ معذور بیوی سے پیچھا چھڑانے کے لئے اس کو قتل کردیتے ہیں، اسلام نے بیوی کو قتل سے بچانے کے لئے نکاح ثانی کی اجازت دی ،اور زنا اسلام میں سخت ترین تعزیری جرم ہے، شادی شدہ زنا کرتا ہے تو سنگسار کیا جاتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے جائز موقع فراہم کیا جائے۔
   غرض: مرد کو اجازت دی ہے، مگر اجازت اس شرط کے ساتھ دی ہے کہ سب بیویوں کے ساتھ انصاف کرسکے، اگر کوئی انصاف نہ کرسکے تو دوسری تیسری بیوی کرنا جائز نہیں، سورئہ نساء میں ہے:(فَاِِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَامَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ): اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم چند بیویوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکوگے تو ایک بیوی رکھو، اور اگر ایک کے بھی حقوق ادا نہ کرسکو تو باندیوں سے کام چلاؤ، ایک آزاد عورت سے بھی نکاح مت کرو، ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت انصاف کی شرط کے ساتھ ہے۔
   بہرحال امت جو نکاح کرے گی وہ اپنی ضرورت سے کرے گی، اور ایک آدمی کتنی بیویوں کے حقوق ادا کرسکتا ہے: یہ بات اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے: اس لئے ان کے لئے چار کی تعداد مقرر کردی۔
   اور حضورﷺنے جتنے نکاح کئے ہیں ان میں سے دو کے علاوہ کوئی نکاح اپنی ضرورت سے نہیں کیا۔ جب آپکی عمر مبارک پچیس سال کی تھی تب آپؐ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔ یہ نکاح آپؐ نے اپنی ضرورت سے کیا تھا، پھر جب ان کا انتقال ہوگیا تو گھریلو ضرورت سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔ اس کے بعد ایک نکاح( حضرت عائشہ سے) اللہ نے اور کرایا، مگر وہ بیوی صاحبہ گھر میں نہیں آئیں، یہ نکاح ایک خواب کی بنا پر ہوا تھا، بخاری میں روایت ہے کہ آپؐ نے خواب دیکھا، فرشتہ ایک ریشمی کپڑا لایا، اور آپؐ سے کہا: یارسول اللہ! اس کو کھولیے، آپؐ نے کھولا تو اس میں حضرت عائشہ  نظر آئیں۔ یہ خواب آپؐ نے دو تین مرتبہ دیکھا۔
                نبی کا خواب وحی ہوتا ہے اور اس کی بھی تعبیر ہوتی ہے:
نبی کا خواب وحی ہوتا ہے، اور جیسے ہمارے خوابوں کی تعبیر ہوتی ہے نبی کے خواب کی بھی تعبیر ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جوحکم ملا تھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کریں: وہ حکم خواب کے ذریعہ ملا تھا، انھوں نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کی قربانی کررہے ہیں۔ خواب حضرت ابراہیم کی سمجھ میں نہیں آیا، کیونکہ بیٹے کی قربانی کرنے کا رواج نہیں تھا۔ حضرت ابراہیم  نے سو اونٹوں کی قربانی کرکے غریبوں میں ان کا گوشت بانٹا، کیونکہ ایک جان کی دیت سو اونٹ ہوتی ہے، چند دن بعد پھر وہی خواب دیکھا، اب بھی سمجھ میں نہیں آیا، پھر سو اونٹ کی قربانی کرکے غریبوں میں ان کا گوشت بانٹا، چند دن کے بعد پھر وہی خواب دیکھا، اب حضرت سمجھے کہ اس خواب کی تعبیر نہیں ہے، بیٹے ہی کی قربانی مقصود ہے، چنانچہ آپؐ بیت المقدس سے سفر کرکے مکہ مکرمہ پہنچے، اور بیٹے سےکہا(اِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ: أَنِّیْ أَذْبَحُکَ) میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں: (فَانْظُرْ مَاذَا تَریٰ):پس بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا:(یٰا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ، سَتَجِدُنِیْ ِنْ شَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ): ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کیجئے، میں ذبح ہونے کے لئے تیار ہوں، آپ مجھے اگر اللہ نے چاہا تو برداشت کرنے والوں میں سے پائیں گے یعنی میں ہمت کرکے ذبح ہونے کی تکلیف برداشت کرلونگا۔ غور کریں: اسماعیل علیہ السلام نے کہا ہے: (اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ) اس سے معلوم ہوا کہ خواب بھی امر ہے۔
  ایسے ہی حضورﷺکو جو خواب دکھایا گیا تھا اس میں فرشتہ نے اگرچہ صرف اتنا کہا تھا کہ ہذہ زوجتک: یہ آپ کی اہلیہ ہیں، مگر وہ امر( حکم) تھا، چنانچہ حضورنے فرمایا:ان کان من اﷲ یُمْضِہِ: اگر یہ بات اللہ کی طرف سے طے ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی کوئی شکل کریں گے۔
    اُدھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے طور پر سوچ رہے تھے کہ وہ اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح حضورﷺسے کردیں، کیونکہ حضرت سودہ زیادہ دنوں کی مہمان نہیں تھیں،اس لئے چند سالوں کے بعد جب وہ نہیں رہیں گی یا بوڑھی ہوکر شوہر کے کام کی نہیں رہیں گی تو عائشہ بالغ ہوکر حضور کا گھر سنبھال لیں گی۔
    چنانچہ حضرت ابوبکر نے پیش کش کی، اور آپؐ چونکہ کئی مرتبہ خواب دیکھ چکے تھے، اس لئے ان کی پیش کش منظورکرلی، یوں آپؐ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہو گیا۔ حضور نے یہ نکاح اپنی ضرورت سے نہیں کیا تھا۔
   اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کنواریوں میں سے صرف حضرت عائشہ سے حضورنے نکاح فرمایا ہے، اِن کے علاوہ کسی کنواری لڑکی سے حضور نے نکاح نہیں کیا، اور اس نکاح کے فوائد بعد میں ظاہر ہوئے،انھوں نے آدھا دین حضور سے اخذ کیا ۔
   پھر ہجرت کا زمانہ آگیا، ہجرت کے دو سال بعد تک حضرت سودہ ہی آپؐ کے گھر کو سنبھالے رہیں، پھر جب حضرت عائشہ بالغ ہوگئیں تو وہ رخصت ہوکر آپؐ کے گھر میں آگئیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ کی عمر پچپن سال کی ہوچکی تھی، اور زندگی کے صرف آٹھ سال باقی رہ گئے تھے، انہی آخری آٹھ سالوں میں آپؐ نے باقی نکاح کئے ہیں، پس اگر کسی کے پاس معمولی عقل بھی ہے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ شوق کا زمانہ نہیں، بلکہ کسی مصلحت سے آپؐ نے یہ نکاح کئے ہیں۔
    وہ مصلحت کیا تھی؟ تین مصلحتوں سے آپؐ نے یہ نکاح کئے ہیں: سیاسی، ملّی اور شخصی ) تینوں مصلحتوں کی تفصیل اسی حصہ میں کسی اور تقریر میں آچکی ہے اس لئے یہاں سے حذف کی ہے)
   غرض:جب مذکورہ مصلحتیں تھیں توحد کیسے مقرر کی جاتی؟ اور نبی معصوم ہوتا ہے، اس لئے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ آپؐ کسی بیوی صاحبہ کی حق تلفی کریں گے، اس لئے نکاح کے باب میں آپؐ کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔
                غیر مقلدوں کے نزدیک نکاح میں کوئی تحدید نہیں!
یہ مثال میں نے اس لئے دی ہے کہ جب آپﷺکا یہ عمل ہے اور آپؐ کے نکاح میں چار سے زیادہ ازواج جمع ہوئی ہیں تو یہ حدیث ہوئی، چنانچہ اہل حدیث اس حدیث پر عمل کرتے ہیں، ان کے نزدیک امت کے لئے بھی نکاح کے باب میں کوئی تحدید نہیں، نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپالی کے لڑکے نواب نور الحسن خان صاحب نے عَرْف الجادی میں یہ مسئلہ صراحۃ لکھا ہے، حالانکہ یہ حدیث سنت نہیں ہے، امت کا اجماع ہے کہ امت کے لئے چار سے زیادہ بیویاں جمع کرنا جائز نہیں۔
اصل مضمون یہ چل رہا تھا کہ تین قسم کی حدیثیں ہیں، جو سنت نہیں ہیں، ان میں سے دوکا بیان ہوچکا: وہ حدیثیں جو منسوخ ہیں، اور وہ حدیثیں جو نبی پاکﷺ کے ساتھ خاص ہیں: حدیثیں ہیں، مگر سنت نہیں ۔ اب تیسری قسم بیان کرتا ہوں۔
تیسری قسم:نبیﷺنے کسی مصلحت سے کوئی بات فرمائی یا کوئی عمل کیا تووہ حدیث ہے مگر سنت نہیں، اس کی پانچ مثالیں سنیں،اور اتنی مثالیں اس لئے پیش کررہا ہوں کہ یہ مسائل سمجھنے ضروری ہیں۔
                مغرب سے پہلے نفلیں پڑھنا سنت نہیں
پہلی مثال: بخاری شریف میں ایک باب ہے:باب الصلاة قبل المغرب (کتاب التہجد باب 35 حدیث1183): نبینے فرمایا مغرب سے پہلے نفلیں پڑھو، یہ بات دو مرتبہ فرمائی، پھر تیسری مرتبہ : لِمَنْ شاء بڑھایا یعنی مغرب سے پہلے کوئی نفلیں پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے، راوی کہتے ہیں: آپؐ نے لمن شاء اس لئے بڑھایا کہ لوگ اس کو سنت نہ بنالیں:کراھیةَ أَنْ یَّتَّخِذَھا النَّاسُ سُنَّةً: اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ لوگ اس نماز کو سنت بنالیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث اور سنت الگ الگ چیزیں ہیں، اور ارشاد پاک: صَلُّوا قبلَ صلاةِ المغرب مسئلہ سمجھانے کے لئے ہے۔ عصر کے فرض پڑھنے کے بعد جو نفلوں کی ممانعت ہے وہ غروبِ شمس تک ہے، سورج چھپتے ہی کراہیت ختم ہوجاتی ہے، اب کوئی نفلیں پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے، مگر اس وقت میں نفلیں پڑھنا سنت نہیں ، نبیﷺنے مغرب سے پہلے کبھی نفلیں نہیں پڑھیں ، چاروں خلفاء نے بھی نہیں پڑھیں۔
اوراگر کوئی کہے کہ جب مغرب کی اذان ہوتی تھی تو صحابہ ستونوں کی آڑ لے کر نفل پڑھتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دور ما بعد کا واقعہ ہے، اور صحابہ کے عمل سے جواز ثابت ہوتا ہے، اور یہ جواز توخود حضورؐ کے ارشاد سے بھی ثابت ہوتا ہے، اور جواز میں کوئی کلام نہیں، اگر مغرب کے فرضوں میں تاخیر نہ ہو ،اور کوئی نفلیں پڑھے تو بلاشبہ جائز ہے مثلاً: رمضان میں اذان کے دس منٹ کے بعد نماز کھڑی ہوتی ہے، پس کوئی کھجور سے افطار کرکے نفلیں پڑھے: تو پڑھے، لیکن اگر اس کو سنت بنالیا جائے تو پھر پورے سال پندرہ منٹ کے بعد مغرب کی نماز کھڑی ہوگی، جو سنت کے خلاف ہے، مغرب کی نماز میں جلدی کرنا مطلوب ہے
کھڑے ہوکر پیشاب کرنا سنت نہیں
دوسری مثال: نبیﷺنے زندگی میں ایک مرتبہ ایک قوم کی کوڑی پر کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا :یہ حدیث ہے، مگر سنت نہیں،یہ دینی طریقہ نہیں، آپؐ ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب فرماتے تھے، اور وہی سنت ہے۔
پھر حضورؐنے کھڑے ہوکر پیشاب کیوں فرمایا؟ مسئلہ کی وضاحت کے لئے۔ کبھی انسان کو ایسی مجبوری پیش آتی ہیں کہ بیٹھ نہیں سکتا، مثلاً کوڑی ہے، گندگی کی جگہ ہے، ایسی مجبوری میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے، یا کسی بیماری کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتا: تب بھی یہی حکم ہے۔ بیل کی طرح کھڑے کھڑے موتنا سنت کے خلاف ہے، یہ غیروں کا طریقہ ہے۔
  پھر سنت کیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:مَنْ حَدَّثَکُمْ أَنَّ النبیَّ صلی اﷲ علیہ وسلم کَانَ یَبُوْلُ قَائِمًا فَلاَ تُصَدِّقُوْہُ، مَاکَانَ یَبُوْلُ ِلاَّ قَاعِدًا:اگر تم سے کوئی بیان کرے کہ آپؐکی عادت شریفہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی تھی تو ہرگز اس کی بات نہ ماننا، آپؐ ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیشاب فرمایا کرتے تھے۔
 ایک لطیفہ:
  نیویارک کی ایک مسجد میں ایک غیر مقلد حدیث کی تعلیم کررہا تھا، اس نے یہی کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی روایت بیان کی، اور کہا: کھڑے ہوکر پیشاب کرنا سنت ہے، اس حدیث سے یہ بات صراحۃ ثابت ہوتی ہے۔ مجمع میں سے ایک شخص نے سوال کیا: یہ سنت صرف مردوں کے لئے ہے یا عورتوں کے لئے بھی ہے؟ بس اس کی سِٹّی گم ہوگئی!
                حیض کے زمانے میں بیوی کو ساتھ لٹانا سنت نہیں:
تیسری مثال: ایک مرتبہ نبیﷺنے حیض کے زمانہ میں حضرت عائشہ سے فرمایا: لنگی باندھ کر میرے ساتھ لیٹ جاؤ۔ یہ مسئلہ کا بیان تھا،سنت نہیں ہے۔ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ آپؐ اور حضرت عائشہ ساتھ لیٹے ہوئے تھے، رات میں حضرت عائشہ  کا حیض شروع ہوا، وہ چپکے سے کھڑی ہوگئیں، ایسے موقعہ پر عورتیں روئی لنگوٹ وغیرہ باندھتی ہیں، آپؐ کی آنکھ کھل گئی، آپؐ نے پوچھا: کیا ماہواری شروع ہوگئی؟ انھوں نے کہا: ہاں یارسول اللہ! آپؐ نے فرمایا: جوکپڑے باندھنے ہیں وہ باندھ لو ، پھر لنگی پہن کر میرے ساتھ لیٹ جاؤ، کیونکہ رات آدھی ہوگئی ہے، گھر میں کوئی چراغ نہیں ہے، مسجد نبوی میں چراغ نہیں جلتا تھا: گھر میں چراغ کہاں سے آتا! اس لئے آپؐ نے فرمایا: لنگی باندھ کر میرے ساتھ لیٹ جاؤ۔
  یہ زندگی میں ایک مرتبہ کا واقعہ ہے اور مسئلہ کا بیان ہے، سنت نہیں ہے۔ جب حضرت عائشہ یہ واقعہ بیان کرتیں تو ساتھ ہی یہ بھی کہتیں :وَأَیُّکُمْ یَمْلِکُ أَرَبَہ: تم میں سے کون اپنی خواہش پر کنڑول کرسکتا ہے؟ یعنی اس کو سنت سمجھ کر حالت ِ حیض میں بیوی کو ساتھ نہ لٹاؤ، ورنہ گناہ میں مبتلا ہوجاؤگے۔
                حالت ِ حیض میں بیوی سے کتنا قریب ہوسکتے ہیں؟
اور وہ مسئلہ کیا ہے جس کی آپؐ نے اپنے عمل سے وضاحت فرمائی ہے؟ جواب: حیض کے بارے میں قرآنِ کریم میں آیت ہے:(وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ، قُلْ ہُوَ أَذَیً فَاعْتَزِلُوْا النِّسَائَ فِیْ الْمَحِیْضِ وَلاَ تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ): لوگ آپؐ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ بتلائیں کہ حیض کی حالت تکلیف دہ حالت ہے، اس گندگی کی حالت میں صحبت کرنا سوزاک کی بیماری پیدا کرتا ہے، اور اس زمانے میں صحبت کرنے سے بیوی کو بھی تکلیف ہوتی ہے، اس لئے حیض کی حالت میں عورتوں سے علاحدہ رہو، اور ان کے نزدیک مت جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔
  اب اس کی وضاحت ضروری ہے کہ کتنا علاحدہ رہنا ضروری ہے ،اور کتنا نزدیک جانا جائز ہے، اور کہاں تک جانے پر پابندی ہے؟ جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہودیوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حیض کے زمانہ میں عورت کو علاحدہ کمرہ دیتے تھے، اس کے کمرے میں شوہر نہیں جاتا تھا، حائضہ کے ہاتھ کا پکا ہوا بھی کوئی نہیں کھاتا تھا، آج بھی یہود کا یہی طریقہ ہے، چنانچہ صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ! آپؐ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ یہود کی مخالفت کرو، پس کیا ہم حالت ِ حیض میں بیوی سے صحبت نہ کریں؟ تاکہ ان کی پوری مخالفت ہوجائے، اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی ،اور اس میں حکم دیا کہ حیض کے زمانے میں عورتوں سے علاحدہ رہو، اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں: ان کے نزدیک مت جاؤ۔ اب اس اجمال کی وضاحت ضروری تھی، چنانچہ نبیﷺنے مختلف طرح سے اس آیت کی تفسیر بیان کی:
 ١ـ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حالت ِ حیض میں ہوتی تھیں اور آپؐاور حضرت عائشہ ایک ہی پلیٹ میں کھاتے تھے، معلوم ہوا کہ اتنا قریب جاسکتے ہیں۔
 ٢ـ حضرت عائشہ نے گوشت کی بوٹی آدھی کھائی ہوتی تھی: باقی ان کے ہاتھ سے لے کر آپؐ نوش فرماتے تھے، معلوم ہوا کہ اتنا نزدیک جانا بھی جائز ہے، اُس بوٹی پر حضرت عائشہ کا لعاب لگا ہواہوتا تھا اور اس بوٹی کو آپؐ نوش فرماتے تھے، معلوم ہوا کہ حائضہ کا تھوک پاک ہے، اور جب تھوک پاک ہے تو پسینہ بھی پاک ہے۔ 
٣ـ آپؐ اعتکاف میں ہوتے تھے، مسجد میں بیٹھے ہوئے سر حجرے میں نکال دیتے تھے، حضرت عائشہ نیچے برتن رکھ کر سر مبارک دھوڈالتی تھیں، پھر بال خشک کرکے تیل ڈال کر گنگھا کردیتی تھیں اور وہ حالت حیض میں ہوتی تھیں، معلوم ہوا کہ بیوی حالت ِ حیض میں شوہر کی یہ خدمت بھی کرسکتی ہے۔
 ٤ـاور مذکورہ واقعہ میں حضور نے فرمایا:لنگی باندھ کر میرے ساتھ آکر لیٹ جاؤ، چنانچہ امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ حیض کے زمانہ میں ناف سے گھٹنے تک بدن کو کپڑے کی آڑ کے بغیر ہاتھ لگانا جائز نہیں، کیونکہ اس سے زیادہ نبی ﷺ نزدیک نہیں ہوئے۔
                 بچے کو گود میں لے کر نماز پڑھنا سنت نہیں!
چوتھی مثال: ایک مرتبہ جب تکبیر ہوئی تو نبیﷺاپنی نواسی کو گود میں لئے ہوئے گھر  سے تشریف لائے، اور اس بچی کو گود میں اٹھائے ہوئے پوری نماز پڑھائی: جب سجدہ کرتے تھے تو بچی کو نیچے بٹھادیتے تھے، اگلی رکعت میں پھر اس کو گود میں لے لیتے تھے، آپؐ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ یہ عمل کیا ہے، اور یہ بھی مسئلہ کی وضاحت کے لئے تھا۔ کیا آپؐکے گھروں میں اس بچی کو دس منٹ کے لئے کوئی رکھنے والا نہیں تھا؟ ضرور تھا، مگر آپؐ بالقصد بچی کو لے کر آئے تھے اور اس کے ساتھ نماز پڑھا کر دکھائی تھی، کیونکہ بعض دفعہ ایسے حالات پیش آتے ہیں: آدمی کبھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں بچہ کو بٹھاکر نماز پڑھے گا تو درندہ اس کوپھاڑ کھائے گا، یا اغوا کرنے والے اچک لے جائیں گے، ایسی صورت میں آدمی کیا کرے؟ بچے کو گود میں لے کر نماز پڑھے ! نماز قضاء نہ کرے، اور کبھی گھر میں ایسا ہوتا ہے کہ بچہ کسی وجہ سے ڈر جاتا ہے، ماں سے جدا نہیں ہوتا، جدا کرتی ہے تو روتا ہے، اور گھر میں کوئی دوسرا رکھنے والا نہیں: ایسی صورت میں کیاماں نماز قضا کرے گی؟ نہیں! بچے کو گود میں اٹھاکر نماز پڑھے گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ بچے کا بدن اور کپڑے پاک ہوں۔
  غور کرو! حضورﷺنے ایک عمل کرکے ماؤں کے لئے کتنا بڑا راستہ کشادہ کردیا! اب اگر کوئی کہے کہ یہ سنت ہے اور وہ چھوٹے بچے کو گود میں لے کر نماز پڑھے تو اس سے کہا جائے گا کہ یہ سنت نہیں ہے، یہ عمل تو مسئلہ کی وضاحت کیلئے کیاتھا، پس یہ حدیث ہے، سنت نہیں ۔
                ناسمجھ بچوں کو مسجد میں لانا ممنوع ہے:
  یہاں( کناڈا، یوروپ اور امریکہ میں) لوگ چھوٹے بچوں کو مسجد میں لے کر آجاتے ہیں، اور چھوڑ دیتے ہیں، وہ صفوں میں دوڑتے پھرتے ہیں، اور لوگوں کی نماز خراب کرتے ہیں، حالانکہ ابن ماجہ وغیرہ میں حدیث ہے:جَنِّبُوْا مَسَاجِدَکُمْ صِبْیَانَکُمْ: اپنی مسجدوں کو اپنے( ناسمجھ) بچوں سے بچاؤ، جب تک بچے پاکی ناپاکی کو نہ سمجھیں اور مسجد کا احترام نہ جانیں: بچوں کو مسجد میں لانا منع ہے، لوگ یہ حدیث پیش کرتے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ عمل مسئلہ کی وضاحت کے لئے تھا، سنت نہیں تھا۔
                 سنت کی کسوٹی صحابہ کا عمل ہے:
 سوال: ہم کیسے جانیں کہ حضورؐنے یہ جوعمل کیا ہے، وہ مسئلہ نہیں ہے، مصلحت ہے، اس کے پہچاننے کے لئے کسوٹی کیا ہے؟
جواب: کسوٹی صحابہ کا عمل ہے، صحابہ نے اس پر عمل کیا ہے یا نہیں؟ اگر کیا ہے تو وہ سنت ہے، ورنہ وہ عمل کسی مصلحت سے ہے، آپؐ صحابہ کا پورا دور دیکھیں، کسی صحابی نے کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا اور ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ کسی صحابی نے حالت ِ حیض میں بیوی کو ساتھ لٹایا ہو، اور کبھی بھی کسی صحابی نے بچے کو گود میں لے کر مسجد میں آکر نماز نہیں پڑھی ہو۔ صحابہ سے زیادہ سنتوں کا عاشق کون تھا؟اگر یہ اعمال سنت ہوتے تو صحابہ ضرور ان پر عمل کرتے۔ پس یہ اس بات کی کسوٹی ہے کہ یہ حدیثیں: محض حدیثیں ہیں، سنت نہیں ہیں۔ اور آپؐکے یہ سب اعمال کسی مصلحت سے ہیں۔
                زور سے آمین کہنا حنفیہ کے نزدیک سنت نہیں:
پانچویں مثال: اُنہی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت: تعلیم امت بھی ہے، جب حضرت وائل بن حُجر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو بیس دن ٹھہرے ہیں، اور ساٹھ جہری نمازیں آپؐکے پیچھے پڑھی ہیں، ان میں سے تین نمازوں میں آپؐنے زور سے آمین کہی ہے، یہ جہر حضرت وائل کی تعلیم کے لئے تھا، پس یہ بھی حدیث ہے، سنت نہیں۔
  اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت وائل یمن کے نواب زادے تھے، جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ وہاں گورنر بناکر بھیجے گئے، اور انھوں نے دعوت کا کام شروع کیا تو حضرت وائل مسلمان ہوگئے، ایک تو وہ بڑے آدمی تھے، دوسرے وہ خود سمجھ دار تھے، حضرت معاذ نے ان کو مشورہ دیا کہ مدینہ جاؤ، اور حضورﷺسے ملو، حضورؐتمہیں دیکھ کر خوش ہونگے، چنانچہ وہ یمن سے مدینہ آئے، جب تین دن کی مسافت پر رہ گئے تووحی سے آپؐ کواطلاع ملی، آپؐ نے صحابہ کو خوش خبری سنائی، چنانچہ سارا مدینہ منتظر تھا کہ کوئی نواب زادہ مسلمان ہوکر آرہا ہے، پھر جب وہ مدینہ پہنچے تو نبیﷺ نے مسجد سے نکل کر ان کا استقبال کیا ،اور ان کو خوش آمدید کہا، پھر ان کو اپنے ساتھ لائے، اور اپنی چادر بچھاکر اس پر بٹھایا۔
   حضرت وائل  بیس دن حضورؐکے پاس رہے ہیں، ان بیس دنوں میں آپؐ نے ان کے نماز پڑھنے کے لئے اپنے پیچھے پہلی صف میں جگہ متعین کردی تھی، وہ کہتے ہیں: جب نبی ﷺ نے پڑھا:(غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ): تو آمین کہی، اور آمین کے ساتھ اپنی آواز کھینچی، یعنی زور سے آمین کہی، آگے روایت میں ہے:سَمِعْتُہُ وَأَنَا خَلْفَہُ: میں نے آپؐکی آمین سنی، درانحالیکہ میں آپؐ کے پیچھے تھا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنی زور سے آمین کہی ہوگی، آج کل زور سے آمین کہنے والے دو غلطیاں کرتے ہیں: ایک: چلاکر آمین کہتے ہیں، حالانکہ حضورؐنے اتنی زور سے آمین کہی تھی کہ پہلی صف میں حضرت وائل نے سن لی تھی، لوگ اسی حدیث کی بناء پر زور سے آمین کہتے ہیں، پس اتنی ہی آواز سے آمین کہیں ۔ دوسری غلطی یہ کرتے ہیں کہ آمین کے الف کو کھینچتے ہیں، اللہ جانے وہ کونسا مد کرتے ہیں، اس کو صرف ایک الف کے بقدر کھینچنا چاہئے۔
   بہرحال میں یہ بتارہا تھا کہ حضرت وائل کہتے ہیں: حضورﷺنے آمین کہی اور میں نے پہلی صف میں سنی، اور ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے ثلاثاً آمین کہی،ثلاثاً کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ آپؐ نے تین دفعہ آمین کہی، مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ ثلاثاً  کا یہ مطلب نہیں ہے، بلکہ تین نمازوں میں جہراً آمین کہی، بیس دن کی جہری نمازیں ساٹھ ہوتی ہیں، ان میں سے صرف تین نمازوں میں جہراً آمین کہی ہے، اور دُولابی کی کتاب الاسماء والکُنٰی میں روایت ہے: حضرت وائل کہتے ہیں:مَاأُرَاہُ ِلاَّ لِیُعَلِّمَنَا: جہاں تک میرا خیال ہے آپؐ نے زور سے آمین مجھے سکھلانے کے لئے کہی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ آپؐ کا جہراً آمین کہنا ایک خاص مصلحت سے تھا، پس اس سے بھی صرف جواز ثابت ہوتا ہے، سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
   بہرحال مضمون یہ چل رہا تھا کہ حدیث اور سنت میں عام خاص من وجہ کی نسبت ہے، اور جہاں یہ نسبت ہوتی ہے وہاں تین مادے ہوتے ہیں، ایک مادہ افتراقی کا بیان ہوچکا کہ تین قسم کی روایتیں حدیثیں ہیں، سنت نہیں ہیں: ایک: وہ حدیثیں جو منسوخ ہیں، دوسری: وہ حدیثیں جو نبی پاکﷺکے ساتھ خاص ہیں، تیسری: وہ حدیثیں جن میں حضورؐنے کوئی ارشاد فرمایا ہے یا کوئی عمل کیا ہے، کسی مصلحت سے یا کوئی مسئلہ سمجھانے کے لئے۔
                خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کا حکم
دوسرا مادہ افتراقی:اور کچھ چیزیں سنت ہیں، مگر حدیث نہیں ، وہ خلفائے راشدین کی سنتیں ہیں،نبی پاکﷺنے ارشاد فرمایا ہے: عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھدِیِّیْنَ، تَمَسَّکُوْا بِھََا، وَعَضُّوْا عَلَیْھََا بِالنَّوَاجِذِ: میری سنت مضبوط پکڑو، اور میرے بعد میرے جو جانشیں آئیں گے ان کی سنت مضبوط پکڑو۔
یہاں کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اللہ کے نبی تو اللہ کے نبی ہیں، گفتۂ او گفتۂ اللہ بود، آپؐ کا فرمایا ہوا تو اللہ کا فرمایا ہوا ہے، مگر یہ خلفائے راشدین کون سے نبی ہیں کہ ان کی سنت کی پیروی کی جائے؟
اس لئے آگے فرمایا کہ ان کی سنت کی پیروی اس لئے ضروری ہے کہ وہ راشد ہوں گے، راشدکے معنی ہیں: راہ یاب، اور فرمایا: وہ مہدی ہونگے، مہدی کے معنی ہیں: ہدایت مآب، یعنی ہدایت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہوگی۔
   یہ بنیاد ہے ان کی سنت کی پیروی کرنے کی، اور ہم جو ائمہ کی تقلید( پیروی) کرتے ہیں اس کی بھی یہی بنیاد ہے، اور غلطی کا احتمال اگر ابوحنیفہ و شافعی میں ہے تو ابوبکر وعمر وعثمان وعلی میں بھی ہے، لیکن غلطی کے احتمال کے باوجود خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی ضروری ہے پس اسی بنیاد پر مجتہدین کی پیروی بھی ضروری ہے، ابو حنیفہ کی پیروی عالم دین ہونے کی وجہ سے ہے، قرآن وحدیث کا کامل علم رکھنے کی وجہ سے ہے، چنانچہ امام اعظم کا قول مذہب میں موجود ہوتا ہے، مگر دلائل سے وہ قوی نہیں ہوتا تو امام صاحب کا قول چھوڑ دیا جاتا ہے، اور صاحبین کے قول پر فتوی دیا جاتا ہے، معلوم ہوا کہ پیروی دلائل کی کی جاتی ہے، محض قول کی پیروی نہیں کی جاتی۔
 پھر مذہب ِ حنفی کیوں کہتے ہیں؟جواب: یہ ایک رمزی نام ہے، ایک مکتب فکر کا نام ہے، معین شخص مراد نہیں، چنانچہ آج نئے مسائل میں مفتی صاحبان جوفتوے دیتے ہیں وہ بھی مذہب ِ حنفی میں شامل ہوتے ہیں۔
  بہرحال مجتہدین کی پیروی بھی اسی بنیاد پر ہے جس بنیاد پر خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کا حکم ہے۔
    پھر فرمایا: تَمَسَّکُوْا بِھََا: بھما نہیں فرمایا، یعنی میرے خلفاء کی سنت کو مضبوط پکڑو، مفرد کی ضمیر ہے، اور ضمیر قریب مرجع کی طرف لوٹتی ہے، پس ھَاکا مرجع سنۃ الخلفاء ہے، کیونکہ حضورﷺکی سنت کو تو ہر مسلمان قبول کرے گا، وہ تو اللہ کے نبی ہیں، اور اللہ کی طرف سے کہہ رہے ہیں۔ لیکن خلفائے راشدین کی سنتوں کو غیر مقلد نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں: خلفائے راشدین کونسے انبیاء ہیں؟ اس لئے حضورؐنے تاکید فرمائی کہ خلفائے راشدین کی سنتوں کو بھی مضبوط پکڑو، پھر مزیدتاکید فرمائی: عَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ: ان کو ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑو۔ خلفائے راشدین کی یہی سنتیں سنت ہیں، مگر حدیث نہیں ہیں۔       
خلفائے راشدین کی سنتوں کو مضبوط پکڑنے کا حکم کیوں ہے؟
   نبی پاکﷺکے زمانہ تک قومی حکومت( نیشنل گورنمنٹ) قائم ہوئی تھی، بین الاقوامی حکومت( انٹرنیشنل گورنمنٹ) قائم نہیں ہوئی تھی، چنانچہ نیشنل حکومت کے احکام  حضورﷺنے بیان فرمائے ، مگر انٹرنیشنل حکومت کے احکام بیان نہیں فرمائے ۔ اگر ابھی وہ احکام بیان کئے جاتے تو وہ قبل از وقت ہوتے اور قبل از وقت بیان کئے ہوئے احکام سمجھ میں نہیں آتے، اور سمجھے بغیر یاد بھی نہیں رکھے جاسکتے۔
   جیسے آج کل کلونک (قلم لگانے) کا مسئلہ چل رہا ہے، اگر حضورؐاس کے احکام بیان کرتے تو صحابہ کیسے سمجھتے؟ آج مولوی بھی نہیں سمجھتے کہ کلونک کیا چیز ہے؟ اسی طرح اگر حضورؐانٹرنیشنل حکومت کے احکام بیان فرماتے تو صحابہ کیسے سمجھتے؟ اور نہ سمجھتے تو یاد کیسے کرتے؟ اور امت تک کیسے پہنچاتے؟ کیونکہ مسئلہ وقت پر ہی سمجھ میں آتا ہے، اور وقت پر ہی بیان کیا جاتا ہے۔
   انٹرنیشنل حکومت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قائم ہوئی، اور جب بین الاقوامی حکومت قائم ہوتی ہے تو ملک میں مختلف مذاہب اور مختلف قومیں آبادہوجاتی ہیں، اور ملت بھی بہت وسیع ہوجاتی ہے، اس لئے ملک وملت کو منظم کرنے کے لئے جو احکام خلفائے راشدین نے جاری کئے ہیں ان کو مضبوط پکڑنا ضروری ہے، اور ان دو معاملوں کے علاوہ وضو، نماز اور روزے وغیرہ کے مسائل میں خلفائے راشدین کی رائیں امت کے دیگر مجتہدین کی رایوں کی طرح ہیں، ان میں ضروری نہیں کہ خلفائے راشدین کی جو رائیں ہیں: وہ سب لی جائیں، یہ بات بعد کے مجتہدین کے اختیار پر موقوف ہے۔
                 وہ روایتیں جو حدیثیں بھی ہیں اور سنت بھی:
  اور مادہ اجتماع: وہ سب روایتیں ہیں جو معمول بہا ہیں، وہ حدیث بھی ہیں اور سنت بھی، اور ایسی روایتیں بے شمار ہیں ، پس ثابت ہوا کہ حدیث اور سنت ایک نہیں، دونوں میں فرق ہے۔ مگر ایک فرقہ جو خود کو اہل حدیث کہتا ہے، وہ کوئی بھی حدیث مل جائے: اس پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتا ہے، چنانچہ ان کے یہاں نکاح چار میں منحصر نہیں، آدمی جتنے چاہے نکاح کرسکتا ہے، اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ حضورؐکے نکاح میں نوبیویاں تھیں۔ اور نبیﷺنے حضرت غیلان ثقفی کو جو حکم دیا تھا کہ چار سے زائد بیویوں کو الگ کرو: اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ضعیف روایت ہے، اور غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف روایت: موضوع روایت کے ہم  پلّہ ہوتی ہے۔
    ضعیف روایات موضوعات کے ہم پلہ نہیں:
حالانکہ ضعیف :حدیث ہے اور موضوع توحدیث ہی نہیں۔ موضوع: وہ بات ہے جو لوگوں نے گڑھ کر حضور کے نام لگائی ہے، جیسے:أَوَّلُ مَاخَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ: سب سے پہلے اللہ نے میرا نور پیدا کیا۔ یہ حدیث قطعاً باطل ہے۔ یہ حدیث زرقانی کی مواہب لدنیہ میں ہے، اور زرقانی نے مصنف عبد الرزاق کا حوالہ دیا ہے، یہ کتاب گیارہ جلدوں میں چھپ چکی ہے، میں نے گیارہ طلباء کو ایک ایک جلد دے کر بٹھایا کہ اس کا ایک ایک حرف پڑھو، اور تلاش کرو یہ حدیث کہاں ہے؟ مصنف عبد الرزاق میں طلباء کو یہ حدیث نہیں ملی، اور مواہب لدنیہ میں یہی ایک حوالہ ہے، اور عجلونی کی کشف الخفاء میں بھی یہ حدیث زرقانی ہی کے حوالہ سے نقل کی ہے، اور کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اور سعید زَغلول نے موسوعہ اطراف الحدیث میں کشف الخفاء ہی کا حوالہ دیا ہے، رزقانی کا حوالہ نہیں دیا۔
   یہ حدیث اس طرح ہے: آپؐ نے حضرت جابررضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں پیدا کرنے سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا، پس وہ نور اللہ کی قدرت سے جہاں اللہ نے چاہا گھومتا رہا، اور اس وقت نہ لوح تھی، نہ قلم، نہ جنت، نہ جہنم، نہ فرشتے، نہ آسمان، نہ زمین، نہ دوزخ، نہ چاند، نہ جنات، نہ انسان۔ پھر جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اس نور کے چار حصے کئے، پہلے جزء سے قلم، دوسرے جزء سے لوح، تیسرے سے عرش پیدا کیا، اور چوتھے حصہ کے پھر چار حصے کئے، پہلے حصہ سے حاملین ِ عرش، دوسرے سے کرسی، تیسرے سے باقی فرشتے پیدا کئے، پھر چوتھے جزء کے چار حصے کئے، اول سے آسمان، ثانی سے زمینیں، ثالث سے جنت وجہنم پیدا کیں، پھر چوتھے حصہ کے چار حصے کئے، اول سے مؤمنین کی آنکھوں کی روشنی، ددم :سے ان کے دلوں کا نور یعنی اللہ کی معرفت ، سوم سے ان کی انسیت کا نور یعنی توحید: لا لٰہ لا اﷲ: محمد رسول اﷲ کو بنایا ( ابھی حدیث اور بھی ہوگی، کشف الخفا میں اتنی ہی نقل کی ہے)
  اس حدیث کوپڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے، گھڑی ہوئی بات ہے، اور اس سے وحدت الوجود کے نظریہ کی تائید ہوتی ہے، ایسی حدیثیں موضوع کہلاتی ہیں، یہ حدیثیں نہیں،پس حدیث اور موضوع: متن کی صفتیں ہیں، جو بات نبیﷺنے فرمائی ہے: وہ حدیث ہے، اور جو لوگوں نے آپؐ کے نام لگائی ہے: وہ موضوع ہے۔
  اور وہ حدیثیں جو حضورؐہی نے فرمائی ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں: صحیح، حسن اور ضعیف۔ یہ متن کی صفتیں نہیں ہیں، بلکہ سند کی صفتیں ہیں، یعنی نبی پاکﷺسے وہ حدیثیں جو مصنّفین کتب تک پہنچی ہیں وہ کیسے راویوں کے توسط سے پہنچی ہیں؟ اگر سب راوی اعلی درجہ کے ہیں تو وہ حدیث : صحیح ہے، اور اگر کوئی راوی خفیف الضبط ہے تو وہ حدیث: حسن ہے، اور اگر کوئی راوی کمزور ہے تو وہ حدیث ضعیف ہے۔
                البانی صاحب کا کارنامہ
اور جب سے حدیثیں کتابوں میں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے : صحیح، حسن اور ضعیف تینوں قسموں کو ایک ہی کتاب میں جمع کیا جاتا تھا، اور موضوع کے لئے الگ کتابیں لکھی جاتی تھیں، اور چونکہ سند کے اعتبار سے درجے ہوگئے ہیں، اس لئے فقہاء نے مسائل اخذ کرنے کے اعتبار سے بھی درجے قائم کئے ہیں، اگر کسی مسئلہ میں صحیح حدیث بھی ہے اور حسن بھی تو فقہاء پہلے صحیح کو لیتے ہیں۔ اور اگر کسی مسئلہ میں صحیح حدیث بھی ہے اور ضعیف بھی تو فقہاء صحیح کو لیتے ہیں، ضعیف کو نہیں لیتے۔ اسی طرح حسن اور ضعیف جمع ہوجائیں تو حسن کو لیں گے، ضعیف کو نہیں لیں گے، اور اگر کسی مسئلہ میں صرف ضعیف روایت ہو تو دیکھیں گے کہ ضعف کیسا ہے؟ محتمل یعنی قابل برداشت ہے تو چاروں فقہاء اس سے مسائل میں استدلال کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: جب مختلف سندوں سے کوئی حدیث آئے تو وہ حسن لغیرہ اور قابل استدلال ہوجاتی ہے، جیسے صلاة التسبیح کی کوئی حدیث صحیح نہیں، سب ضعیف ہیں، مگر گیارہ حدیثیں ہیں، پس سب مل کر حسن لغیرہ ہوجائیں گی، اور اس سے صلوة التسبیح کا استحباب ثابت ہوگا، چنانچہ دور اول سے صلاة التسبیح مسلمان پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ اور اگر ضعف قابلِ برداشت نہ ہو، اور سند ایک ہی ہو تو فضائل اعمال میں وہ روایت معتبر ہے، مسائل اس سے ثابت نہیں کئے جاتے۔
   بہرحال چاروں فقہاء کے نزدیک صحیح، حسن اور ضعیف: حدیثیں ہیں،اور اپنے اپنے درجے میں معمول بہا ہیں۔ اب ایک صاحب آتے ہیں: جناب ناصر الدین البانی صاحب، انھوں نے حدیث کی کتابوں میں سے پہلے ضعیف روایتوں کو الگ کیا، ضعیف ابی داؤد، ضعیف جامع صغیر، ضعیف مشکوٰة وغیرہ کتابیں لکھیں۔ پھر انھوں نے ان سب ضعیف حدیثوں کو موضوع حدیثوں کے ساتھ ملادیا، اور کئی جلدوں میں کتاب لکھی: سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة وأثرھا السَّیِّٔ فی الأمة: یعنی ضعیف اور موضوع روایات کا مجموعہ جن سے امت کو سخت نقصان پہنچاہے۔ اس طرح عرب ممالک کے نوجوانوں کا اور آپ کے یورپ اور امریکہ کے جوانوں کا ایک ذہن بنادیا کہ ضعیف حدیث :موضوع حدیث ہے، جب بھی کوئی حدیث ان کے خلاف پیش کی جائے گی تو فوراً کہیں گے:ھذا حدیث ضعیف،اور مراد لیں گے کہ یہ حدیث موضوع ہے، یہ حدیث ہی نہیں ۔ یہ کارنامہ جناب عالی نے انجام دیاہے، اور ساری امت کا ذہن خراب کردیا ہے، عرب ممالک میں اگرچہ البانی کی اس حرکت کے ازالہ کے لئے محنتیں ہورہی ہیں، مگر وہ کتابیں آپ کے ملکوں تک نہیں پہنچی ہیں، اس لئے یہاں البانی صاحب نے جوانوں کو جو زہر پلایا ہے اس کا ازالہ کرتے ہوئے دو سوسال لگیں گے۔
   غرض صحیح بھی حدیث ہے، حسن بھی حدیث ہے اور ضعیف بھی حدیث ہے، مگر حجت سنت ہے، حدیث حجت نہیں، اسی طرح خلفائے راشدین نے ملک وملت کی تنظیم کے لئے جو طریقے رائج کئے ہیں وہ اگرچہ حدیثیں نہیں ہیں، مگر سنت ہیں، اور حجت ہیں۔ اب میں خلفائے راشدین کی سنتوں کی ایک ایک مثال پیش کرتاہوں:
                 حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سنت:
جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو جزیرة العرب میں لوگ تین طرح کے تھے، ایک: مسیلمۂ  کذاب کے ساتھی تھے، ان سے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے لوہا لیا، اور ان کو کیفرکردار تک پہنچایا۔ دوسرے: مسلمان :جوبڑی تعدادمیں تھے۔ تیسرے: وہ لوگ جو مسلمان تھے مگر انھوں نے کہا کہ ہم اپنی زکوٰتیں سنٹرل گورنمنٹ کو نہیں دیں گے، ہم اپنے قبیلہ کی زکوٰتیں وصول کرکے خود تقسیم کریں گے، یہ مانعینِ زکات کہلاتے ہیں، ان کی تعداد تھوڑی تھی۔ حضرت صدیق اکبر نے کہا: میں ان کے ساتھ جنگ کروں گا، حضرت عمر نے کہا: یہ لوگ مسلمان ہیں، ان کے ساتھ جنگ کیسے جائز ہے! حدیث ہے: أُمِرْتُ أَنْ أقاتل الناس یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں، پھر جب انھوں نے کلمۂ اسلام پڑھ لیا تو انھوں نے ہم سے اپنی جانیں اور اپنے اموال محفوظ کرلئے، اب ان سے جنگ جائز نہیں، حضرت ابوبکر نے فرمایا: نہیں! میں ان سے جنگ کروں گا، اگر وہ نبیﷺکے زمانہ میں زکات میں رسّی دیتے تھے: وہ بھی نہیں دیں گے تو میں ان سے لڑونگا، اور ان کو مجبور کرونگا کہ وہ زکات مرکزی حکومت کو دیں۔ مگر پھر جنگ کی نوبت نہیں آئی، وہ لوگ قائل ہوگئے، اور انھوں نے سنٹرل گورنمنٹ کوزکوٰة بھیجنی شروع کردی۔
  اب مسئلہ طے ہوگیا کہ جو چیزیں شعائر ِ اسلام سے ہیں، اگرچہ وہ سنت کے درجے کی چیزیں ہوں، اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت بالاتفاق ان شعائر کو ترک کردے تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے گی، اور ان کو مجبور کیا جائے گاکہ وہ شعائر اسلام قائم کریں۔ جیسے ختنہ: اصح قول کے مطابق سنت ہے، لیکن اگر کسی علاقہ کے مسلمان طے کرلیں کہ وہ ختنہ نہیں کرائیں گے تو اسلامی حکومت ان کے ساتھ جنگ کرے گی اور ان کو ختنہ کرنے پر مجبور کرے گی۔اسی طرح اذان سنت ہے لیکن اگر کسی علاقہ کے لوگ طے کردیں کہ وہ اذان نہیں دیں گے تو حکومت ان کے ساتھ جنگ کرے گی اور ان کو اذان دینے پر مجبور کرے گی، یہ سب مسائل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اس سنت سے طے ہوئے۔ علاوہ ازیں حضرت ابوبکر نے اپنے بعد خلیفہ نامزد کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے: وہ بھی آپ کی سنت ہے۔
                 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنتیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنتیں تو بے شمار ہیں، انھوں نے بہت سے مسائل طے کئے ہیں، تراویح کے ذریعہ ملت کی تنظیم کی ہے، اور ایک مجلس یا ایک لفظ سے دی ہوئی تین طلاقیں، جبکہ تاکید کی نیت نہ ہو: تین قرار دے کر چور دروازہ بند کردیا ہے،یہ ملت کی تنظیم ہے۔ اور عراق جو لڑکر فتح کیا گیاتھا اس کی زمینیں مجاہدین میں تقسیم نہ کرنا اور ذمیوں پر جزیہ کی جو شرح مقرر کی ہے یہ سب ملک کی تنظیم ہے۔
                 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سنتیں:
 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دو زبردست کام کئے ہیں، ایک: جمعہ کی اذان بڑھائی ہے، یہ ملت کی تنظیم ہے۔دوسرا: امت کو لغت قریش پر جمع کیاہے، یہ بھی ملت کی تنظیم ہے۔
   قرآن قریش کی لغت میں نازل ہوا تھا، پھر اسے متعدد طرح سے پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، چنانچہ لوگ مختلف طرح سے پڑھتے بھی تھے اور مختلف طرح سے لکھتے بھی تھے، حضرت عثمان کے زمانے میں مسلمانوں میں اس سلسلہ میں اختلافات شروع ہوئے ۔حضرت عثمان نے قرآن کی جو اصل تحریریں تھیں وہ منگوائیں اور قریش کی زبان میں جو قرآن نازل ہوا تھا، اور جس کو نبیﷺنے لکھوایا تھا اور ملاحظہ بھی فرمایا تھا، اُس لغت میں متعدد قرآن تیار کراکر پورے ملک میں پھیلادئیے اور حکم دیا کہ اس کے علاوہ جو بھی قرآن لکھے گئے ہیں وہ مدینہ میں بھیج دئیے جائیں، آپ نے ان سب کو جلوادیا۔ اور جو سات طرح سے قرآن پڑھنے کی اجازت تھی اس کو موقوف کردیا، جیسے حضرت عمر نے مؤلفة القلوب کا حصہ موقوف کردیا  تھا، یہ حضرت عثمان کی سنتیں ہیں۔
                حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمان آپس میں لڑے، پہلی لڑائی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہوئی، اس جنگ میں حضرت عائشہ  اونٹ پر سوار تھیں، اس لئے وہ جنگ جمل کہلاتی ہے، اس جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہاریں، اور قیدی پکڑے گئے، حضرت عائشہ بھی قیدیوں میں تھیں، مالِ غنیمت بھی جمع ہوا، پس حضرت علی کی فوج نے مطالبہ کیا کہ مالِ غنیمت تقسیم کیا جائے، حضرت علی نے تقریر فرمائی، اور فرمایا: اگر مالِ غنیمت تقسیم ہوگا تو قیدی بھی غلام باندی بنائے جائیں گے، پس تم میں سے کون منحوس ہے جو اپنی ماں حضرت عائشہ صدیقہ کو اپنی باندی بنائے گا؟ بس سناٹا چھاگیا، اور مسئلہ طے ہوگیا کہ اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑیں تو نہ مال: مالِ غنیمت ہوگا، اور نہ قیدی، غلام باندی بنائے جائیں گے۔ یہ حضرت علی کی سنت ہے، اور یہ خلفائے راشدین کے وہ طریقے ہیں جو ملک وملت کی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں، جن کو حدیث شریف کی رو سے اپنانا ضروری ہے۔
                حدیث یا سنت کا فیصلہ کون کرے گا؟
 بہرحال حجت سنت ہے، حدیث حجت نہیں، اب رہا یہ سوال کہ اس کا فیصلہ کون کرے گاکہ فلاں حدیث سنت ہے، اور فلاں حدیث سنت نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا فیصلہ مجتہدین کریں گے، اور اس میں کبھی اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔
   مثلاً: تمام فقہاء متفق ہیں کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتی، پس حدیث توضئوا ممامست النار: صرف حدیث ہے، سنت نہیں، اور تمام فقہاء متفق ہیں کہ مجامعت شروع ہوتے ہی غسل واجب ہوجاتا ہے، چاہے فراغت نہ ہوئی ہو، پس حدیث الماء من الماء صرف حدیث ہے، سنت نہیں ۔
   اور نماز میں رفع یدین کی بھی حدیثیں ہیں اور ترک رفع کی بھی۔ اب بڑے دو امام کہتے ہیں : رفع یدین کی حدیثیں منسوخ ہیں، اس لئے سنت ترک رفع ہے۔ اور دوسرے دو اماموں کا فیصلہ اس کے برعکس ہے، ایسا ہی اختلاف آمین بالجہر کی حدیث میں ہواہے۔ دو بڑے امام کہتے ہیں: آپؐ کا جہر حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی تعلیم کے لئے تھا، اس لئے سنت نہیں ، اور دوسرے دو امام جہراً آمین کہنے کو سنت قرار دیتے ہیں ۔ اور ایسے ہی اختلاف کی صورت میں تقلید کی ضرورت پیش آتی ہے۔
                تقلید صرف تین قسم کے مسائل میں ہے، اور ان میں تقلید کے بغیر چارہ نہیں:
اور ائمہ کی تقلید صرف تین قسم کے مسائل میں کی جاتی ہے، باقی ساری شریعت میں کسی کی تقلید نہیں کی جاتی، اللہ اور اس کے رسول ہی کی تقلید کی جاتی ہے، اور ان تین قسم کے مسائل میں تقلید کے علاوہ چارہ نہیں۔ اور وہ تین قسم کے مسائل فقہ کے بیس فیصد مسائل ہیں۔
وہ تین قسم کے مسائل یہ ہیں:
 ١ـ کبھی نص فہمی میں اختلاف ہوجاتا ہے کہ اِس آیت کا اوراِس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ ایک امام کہتا ہے: یہ مطلب ہے، دوسرا کہتا ہے: یہ مطلب ہے، اور زبان کی رو سے دونوں مطلب ہوسکتے ہیں تو تقلید کے علاوہ چارہ نہیں رہتا۔
 ٢ـ کبھی ناسخ ومنسوخ متعین کرنے میں اختلاف ہوجاتا ہے، یعنی کونسی روایت مقدم ہے اور کونسی مؤخر: اس میں اختلاف ہوجاتا ہے۔
 ٣ـ کبھی مسئلہ استنباطی ہوتا ہے، نص کی تہ میں جاکر مسئلہ لانا ہوتا ہے ،اور اس میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ سب کی مثالیں یہ ہیں:
                نص فہمی میں اختلاف کی مثالیں:
   پہلی مثال: قرآنِ کریم میں ہے:(أَوْلاَ مَسْتُمُ النِّسَاءَ): یا تم نے عورتوں سے قربت کی ہو۔ اس آیت میں وضوء توڑنے والی چیز کا ذکر ہے یا غسل توڑنے والی چیز کا؟ قرآنِ کریم میں لاَمَسَ:باب مفاعلہ سے ہے، لَمَسَ: مجرد نہیں ہے، لَمَسَ کے معنی ہیں: چھونا، اور لاَمَسَ کے معنی ہیں: دو شخصوں میں سے ہر ایک کا دوسرے کوچھونا۔
  امام اعظم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس آیت میں موجباتِ غسل کا بیان ہے، لاَمَسَ باب مفاعلہ  سے ہے، اور ایک ساتھ مرد عورت کوپکڑے اور عورت مرد کو پکڑے: ایسا کب ہوتا ہے؟ جب آدمی صحبت کرتا ہے اور فراغت کا وقت آتا ہے تو مرد بیوی کوپکڑتا ہے اور بیوی مرد کو، اور دونوں فارغ ہوتے ہیں۔ پس جب انزال ہوگیا تو غسل واجب ہوگیا۔ غرض امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک(لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ) میں نواقض غسل کا بیان ہے۔
  اور دوسرے تین اماموں کے نزدیک لاَمَسَ: لَمَسَ کے معنی میں ہے اور اس آیت میں نواقض وضوء کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں: اگر باوضوء آدمی نے کسی عورت کو ہاتھ لگایا تو وضوء ٹوٹ گئی۔ اور عربی زبان کے قواعد سے دونوں معنی کی گنجائش ہے، ہر ایک کی بات معقول نظر آتی ہے، پس یہ نص فہمی کا اختلاف ہے۔   
  دوسری مثال: اسی آیت کا اگلا ٹکڑا ہے: (أَوْجَاءَ أَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغَائِطِ): یا آیا ہوتم میں سے کوئی نشیبی جگہ سے( تو وضوء ٹوٹ جائے گی) اب فقہاء میں اختلاف ہوا، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: جب آدمی نشیبی جگہ میں جاتا ہے تو انسان کے بدن سے ناپاکی نکلتی ہے، پس سر سے پیر تک کہیں سے بھی ناپاکی نکل کر بہہ جائے :تو وضوء ٹوٹ جائے گی۔ دوراہوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ اور تین اماموں نے کہا: نشیبی جگہ میں ناپاکی اگلی راہ سے یا دونوں راہوں سے نکلتی ہے، باقی جسم سے نہیں نکلتی، اس لئے انھوں نے طے کیا کہ سبیلین سے ناپاکی نکلے گی تووضوء ٹوٹے گی، ورنہ نہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک قئی، نکسیر، پھوڑے پھنسی سے پیپ یا خون نکلنے سے وضوء نہیں ٹوٹتی۔
   جب ایسا اختلاف ہوجائے تو ہم کیا کریں ؟ جس کو جس امام سے عقیدت ہو اس کی تقلید کرے، ایسی صورت میں تقلید کے علاوہ راستہ کیا ہے؟ ہمارے پاس اتنا علم نہیں کہ ہم خود فیصلہ کریں کہ آیت کا یہ مطلب ہے یا وہ۔
   تیسری مثال: نبی پاکﷺنے فرمایا:صَلاَةُ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی، فَِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِرَکْعَةٍ: رات کی نماز( تہجد کی نماز) دو دو،دو دو رکعتیں ہیں، پس جب تمہیں اندیشہ لاحق ہو کہ صبح صادق ہونے والی ہے توایک رکعت کے ذریعہ نماز کو طاق بناؤ
اس حدیث میں دو مسئلوں میں اختلاف ہوا ہے:
   پہلا اختلافی مسئلہ: تہجد کی نماز میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا مسئلہ ہے یا یہ تہجد گذاروں کے لئے سہولت ہے؟ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ تہجد گذاروں کے لئے ایک سہولت ہے، مسئلہ نہیں ہے۔
    مسئلہ کیا ہے: مسئلہ اختلافی ہے کہ نفلوں میں دو پر سلام پھیرنا اولیٰ ہے یا چار پر؟ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کہتے ہیں: خواہ رات کے نفل ہوں یا دن کے ( اور سنت مؤکدہ بھی نفل ہیں) دو رکعتوں پر سلام پھیرنا اولیٰ ہے، اور اگر کوئی ایک سلام سے چار پڑھے تو یہ بھی جائز ہے، البتہ دو رکعت پر سلام پھیرنا اولیٰ ہے۔
اور امام مالک فرماتے ہیں: رات میں ایک سلام سے چار رکعتیں پڑھنا جائز ہی نہیں، او ر دن میں اولیٰ یہ ہے کہ دوپر سلام پھیرے،اور چار ایک سلام سے جائز ہیں۔
اور صاحبین نے فرمایا کہ رات میں دوپر سلام پھیرنا اولیٰ ہے، اور دن میں چار نفلیں ایک سلام سے پڑھنا افضل ہے۔
اور امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا: رات کے نفل ہوں یا دن کے: چار ایک سلام سے پڑھنا افضل ہے، اور دوپر سلام پھیرنا جائز ہے۔
اور امام اعظم کی دو دلیلیں ہیں:
ایک:دن میں بھی فرض نماز چار رکعتوں والی ہے( ظہر اور عصر) اور رات میں بھی فرض نماز چار رکعتوں والی ہے( عشاء) اور فرائض غیر اولیٰ ہیئت پر نہیں ہوسکتے، بہترین حالت پر ہی فرائض ہوتے ہیں۔ پس ایک سلام سے چار نفلیں پڑھنا اولیٰ ہے۔
  دوسری دلیل: نبیﷺسے دن میں چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھنا ثابت ہے، حضور ظہر سے پہلے چار سنتیں ہمیشہ ایک سلام سے پڑھتے تھے، اور کبھی عصر سے پہلے بھی چار سنتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے، اور نبی کبھی مسئلہ کی وضاحت کے لئے توغیر اولیٰ کام کرسکتا ہے، جیسے آپؐ نے ایک مرتبہ کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا ، مگر نبی بالدوام یا بالاکثر غیر اولیٰ کام نہیں کرتا، اور حضورؐنے دن میں چار سنتیں ہمیشہ یا اکثر ایک سلام سے پڑھی ہیں، اس لئے یہی افضل ہے، اور رات کے نفلوں کو دن کے نفلوں پر قیاس کریں گے، پس رات میں بھی چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھنا افضل ہے۔
اور حضورؐنے جو فرمایا ہے:صلاةُ اللیل مثنیٰ مثنیٰ: امام اعظم رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ مسئلہ نہیں ہے ،مصلحت ہے، یہ تہجد گذاروں کے لئے ایک سہولت ہے۔
صحابہ تہجد کی نماز بہت لمبی پڑھتے تھے، پس اگر چار کی نیت باندھیں گے تو تھک جائیں گے، اس لئے فرمایا: دو کی نیت باندھو اور لمبی پڑھو، پھر سلام پھیر کر ذرا ٹانگیں سیدھی کرو، اور سستا لو،پھر اگلی دو کی نیت باندھو۔ اس طرح اگر کوئی رات بھر بھی نفلیں پڑھتا رہے تو تھکے گا نہیں۔
بہرحال حدیث کے پہلے ٹکڑے میں اختلاف ہوا ہے، امام اعظم کی رائے اور ہے، اور صاحبین کی اور، اوردیگر ائمہ کی اور۔ اور سب حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، پس ایسی صورت میں تقلید کے علاوہ راستہ کیا ہے؟
   دوسرا اختلافی مسئلہ: حدیث کا اگلا ٹکڑا ہے:اِِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِرَکْعَةٍ: جب تمہیں اندیشہ لاحق ہو کہ اب صبح ہونے والی ہے تو ایک رکعت کے ذریعہ نماز کو طاق بناؤ۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ تین امام کہتے ہیں: اب دو رکعتوں پر سلام پھیر دو، اور ایک رکعت علاحدہ پڑھو، ایک رکعت کے ذریعہ طاق بنانے کا یہی مطلب ہے، چنانچہ ان کے نزدیک دوپر سلام پھیرتے ہیں ، اور ایک رکعت الگ سلام سے پڑھتے ہیں۔
 اور احناف کہتے ہیں: اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب تمہیں صبح کا اندیشہ لاحق ہو تو اب دو کی نیت مت باندھو، بلکہ تین کی نیت باندھو، اور دو کے ساتھ تیسری رکعت بھی ملاؤ، یہ آخری تین رکعتیں طاق ہوگئیں، اِس سے پہلے والی سب رکعتیں جفت تھیں۔
 اور حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کا یہ مطلب اس لئے ہے کہ نسائی شریف میں سند صحیح سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبیﷺوتروں کی دو رکعتوں پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔اس حدیث کی روشنی میں حنفیہ نے مذکورہ بالا حدیث کا مطلب سمجھا ہے۔
   احناف کے نزدیک أوتر برکعة:ایک رکعت کے ذریعہ نماز طاق بناؤ کا یہی مطلب ہے کہ اس سے پہلے والی دو رکعتوں کو طاق بناؤ، غرض یہی حدیث حنفیہ کی بھی دلیل ہے اور تین اماموں کی بھی، اور اختلاف نص فہمی کا ہے۔ اب ہم کیا کریں ؟ ہمارے لئے ایک ہی راستہ ہے: جس کو جس امام سے عقیدت ہو اس کی تقلید کرے۔
                روایات میں بھی اختلاف اور تطبیق میں بھی اختلاف:
دوسری قسم کے مسائل: کبھی روایات میں بھی تعارض ہوتا ہے، اور ان کی تطبیق میں بھی اختلاف ہوجاتا ہے، یعنی ناسخ ومنسوخ کی تعیین میں اختلاف ہوجاتا ہے، جیسے حدیث کی کتابوں میں رفع یدین کی روایات بھی ہیں اور عدم رفع کی بھی، یہ دونوں روایتیں ایک زمانہ کی نہیں ہوسکتیں۔ اب ان میں سے کونسی دور اول کی ہیں اور کونسی دور مابعد کی؟ یہ طے کرنے میں ائمہ میں اختلاف ہوگیا، بڑے دو امام کہتے ہیں: رفع والی روایتیں دورِ اول کی ہیں، اور عدم رفع والی روایتیں بعد کی ہیں، اور چھوٹے دو امام کہتے ہیں: عدم رفع والی روایتیں دور ِ اول کی ہیں اور رفع والی بعد کی۔ غرض ناسخ ومنسوخ طے کرنے میں اختلاف ہوگیا، پس ہم کیا کریں ؟ یہی کہ جس کو جس امام سے عقیدت ہو اس کی تقلید کرے۔
 اور بڑے دو اماموں کی دلیل یہ ہے کہ خلفائے راشدین نے رفع یدین نہیں کیا۔ اگر رفع یدین نبیﷺکا آخری عمل ہوتا تو چاروں خلفاء رفع ضرور کرتے، ایسا ممکن نہیں کہ خلفاء آپؐ کے مصلیٰ پر کھڑے ہوتے ہی آپؐ کا عمل بدل دیں۔
                استنباطی مسائل میں اختلاف:
 تیسری قسم کے مسائل:استنباطی مسائل ہیں۔موتی دریا کی تہ میں ہوتے ہیں، اوپر نہیں تیرتے، اور موتی ہر کوئی نہیں نکال سکتا، غواص( غوطہ خور) ہی نکال سکتا ہے۔ ایسے ہی استنباطی مسائل ہیں: جو قرآن وحدیث کی ظاہری سطح پر نہیں ہیں، بلکہ تہ میں ہیں: ان کو کون نکالے گا؟ مجتہدین امت نکالیں گے، مگر ان میں کبھی اختلاف ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں تقلید( پیروی) کے علاوہ راستہ کیا ہے؟ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں:
 آیت ِ وضو میں پانچ استنباطی مسائل اور ان میں اختلاف
   قرآنِ کریم میں آیت ِ وضو ء ہے، اس آیت میں وضوء کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے: دنیا کے تمام مسلمان اسی طرح وضوء کرتے ہیں، لیکن اس آیت میں پانچ استنباطی مسائل ہیں، جن میں اختلاف ہواہے:
 پہلا مسئلہ: یہ ہے کہ وضوء میں نیت ضروری ہے یا نہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک  ضروری ہے۔ دوسرے ائمہ کے نزدیک: ضروری نہیں، اور اس کی صرف نادر صورت ہے: ایک آدمی کھیت میں ہل چلارہا تھا، بارش شروع ہوگئی اور وہ سر سے پیر تک بھیگ گیا، اب نماز کا وقت آگیا، تو کیا نماز پڑھنے کے لئے اُس کو وضوء کرنی پڑے گی یا وہ جو بھیگا ہے اس سے وضوء ہوگئی؟امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے وضوء نہیں ہوئی، اس لئے کہ اس نے نیت نہیں کی، اور دوسرے ائمہ کہتے ہیں: اس کی وضوء ہوگئی۔
   یا ایک آدمی جنبی تھا اور تالاب پر کھڑا تھا، اس کادوست آیا اور دھکا دیدیا، وہ تالاب میں گرپڑا اور ڈوب کر نکل آیا، پس کیا اس کا غسل ہوگیا؟ امام شافعی فرماتے ہیں: نہیں ہوا، کیونکہ اس نے غسل کی نیت نہیں کی، اور دوسرے ائمہ کہتے ہیں: غسل ہوگیا۔ یہ مسئلہ آیت کے ظاہر میں نہیں ہے، یہ استنباطی مسئلہ ہے، اور اس میں اختلاف ہوا ہے، پس ہم کیا کریں ؟ یہی ناکہ جس کو جس امام سے عقیدت ہو اس کی پیروی کرے۔
   دوسرا مسئلہ: آیت میں وضوء کی جو ترتیب ہے وہ لازم ہے یا غیر لازم؟ یعنی اسی ترتیب سے وضوء کرنی ضروری ہے یا نہیں؟ایک آدمی کھیت سے آیا، اس نے پہلے مٹی سے آلودہ پیر دھوئے، پھر چہرہ دھویا، پھر ہاتھ دھوئے اور مسح کیا، تو وضوء ہوئی یا نہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وضوء نہیں ہوئی، کیونکہ وضوء میں ترتیب ضروری ہے، دوسرے ائمہ کہتے ہیں: وضوء ہوگئی، ترتیب سنت ہے، ضروری نہیں، اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں جوواو ہے وہ ترتیب کے لئے ہے یا مطلق جمع کے لئے؟ اس میں اختلاف ہوا ہے، اور یہ استنباطی مسئلہ ہے، اس میں تقلید کے علاوہ چارہ کیا ہے؟
   تیسرا مسئلہ: آیت وضوء میں ا لی المرافق اورا لی الکعبین ہے، یعنی ہاتھوں کو کہنیوں تک اور پیروں کو ٹخنوں تک دھوؤ،اس'' تک'' کا کیا مطلب ہے؟ کہنیاں دھونی ہیں یا نہیں؟ ٹخنے دھونے ہیں یا نہیں؟ امام زفر رحمہ اللہ کہتے ہیں: نہیں ہونے، غایت: مغیا سے خارج ہے۔ باقی ائمہ کہتے ہیں: دھونے ہیں، غایت : مغیا میں داخل ہے۔ غرض  لیکے معنی متعین کرنے میں اختلاف ہوگیا۔
   چوتھا مسئلہ: وضوء میں موالات شرط ہے یا نہیں؟ موالات کے معنی ہیں: ایک عضو خشک ہونے سے پہلے دوسرا عضو دھونا۔ کسی نے ایک عضو دھویا، پھر کسی سے باتیں کرنے لگا، اور دھویا ہوا عضو خشک ہوگیا، پھر اگلا عضو دھویا تو وضوء ہوئی یا نہیں؟ امام مالک کہتے ہیں: وضوء نہیں ہوئی، موالات شرط ہے۔ باقی ائمہ کہتے ہیں: وضوء ہوگئی۔
پانچواں مسئلہ: وضوء میں پیر دھونے ہیں یا ان پر مسح کرنا ہے؟ شیعہ کہتے ہیں: پیروں پر مسح کرنا ہے، اور اہل السنہ والجماعۃ کہتے ہیں: پیر دھونے ہیں، اگر ان پر خفین نہ ہوں۔ شیعہ آیت کی جروالی قراء ت سے استدلال کرتے ہیں، اور اہل السنہ فتح والی قراء ت سے۔
 میں یہ مثالیں اس کی دے رہا ہوں کہ جو استنباطی مسائل ہیں، جو نص کی تہ میں ہیں، ان مسائل میں غواصوں( ائمہ مجتہدین) کے درمیان اختلاف ہوئے ہیں، پس یہ تین قسم کے مسائل ہیں:1 ـ نص فہمی کا اختلاف 2ـ جہاں روایات میں تعارض ہواور تطبیق میں بھی اختلاف ہو 3ـ استنباطی مسائل، جن کے استنباط میں اختلاف ہوجائے تو ان تین قسم کے مسائل میں تقلید کرنی ضروری ہے، ان میں تقلید کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، اور یہ مسائل فقہ اسلامی کا بیس فیصد حصہ ہیں، باقی اسّی فیصد مسائل وہ ہیں جو قرآن وحدیث میں صراحۃ آئے ہیں، ان میں کسی امام کی تقلید نہیں ، ان میں اللہ ورسول ہی کی تقلید کی جاتی ہے۔
 خلاصۂ کلام: میں نے خطبہ میں آیت پڑھی تھی :(قُلْ ھذِہِ سَبِیْلِیْ أَدْعُوْا ِلَی اللّٰہِ): آپ کہئے: یہ میرا راستہ ہے۔اسی راستہ کا نام سنت ہے، اور مشہور حدیث ہے کہ یہود کے اکہتر فرقے ہوئے، جو سب جہنم میں جائیں گے، اور عیسائیوں کے بہتر فرقے ہوئے، وہ بھی سب جہنم میں جائیں گے، اور میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے، جن میں سے بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا، صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ! وہ ایک فرقہ جو جنت میں جائے گا: کونسا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِیْ: وہ ایک فرقہ وہ ہے جو اس طریقہ پر ہوگا جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں۔ یہیں سے چار ائمہ کے متبعین کے لئے نام تجویز کیا گیا : اہل السنہ والجماعۃ: سنت ِ نبوی اور جماعت مسلمین کے فیصلوں (اجماع) کو ماننے والے، جس راہ پر حضور ہیں اس کا نام سنت ہے، اور جس راہ پر صحابہ ہیں وہ جماعت مسلمین کے اجماعی مسائل ہیں۔
 حدیث کے حجت ہونے کی کوئی دلیل نہیں:
حدیث میں حضورﷺنے ارشاد فرمایا: مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِیْ فَلَہ أَجْرُ کَذَا: جب امت میں بگاڑ آجائے: اس وقت جو میرے طریقے سے چمٹا رہے گا اس کو اتنا ثواب ملے گا۔ اور مشکوٰة میں باب ہے:باب الاعتصام بالکتاب والسنة: اس باب میں چھ روایتیں ہیں، سب میں سنت ہی کا لفظ ہے۔ اس لئے چار ائمہ کے ماننے والوں کا مشترک نام : اہل السنہ والجماعۃ ہے۔ اور وہ جو چار ہوگئے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جیسے دیوبند، سہارن پور اور لکھنؤ سے فارغ ہونے والے طلبہ اگرچہ قاسمی، مظاہری اور ندوی کہلاتے ہیں، مگر وہ سب دیوبندی ہیں، اسی طرح حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی اگرچہ جدا جدا نام ہیں، مگر وہ سب اہل السنہ والجماعۃ ہیں، اور ان کے درمیان جو اختلافات ہیں: وہ مسائل میں ہیں، اصول وعقائد میں کوئی اختلاف نہیں، اور مسائل کے اختلاف سے فرقے نہیں بنتے، فرقے عقائد میں اختلاف سے بنتے ہیں، اور وہ جو تہتر فرقوں والی حدیث ہے اس کا تعلق عقائد سے ہے، مسائل سے نہیں ہے۔ جب اصول وعقائد الگ ہوجاتے ہیں تو فرقوں کے نام الگ ہوجاتے ہیں، کوئی اہل حدیث کہلاتا ہے، کوئی اہل قرآن۔ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ حدیث اور سنت ایک چیز ہے: وہ دھوکہ ہے۔ میرے بھائیو! اس دھوکہ میں مت آؤ، اہل قرآن بھی تو یہی کہتے ہیں کہ ہم قرآن کے ماننے والے ہیں۔ یہ سب گمراہ فرقے ہیں، اور سنت اور حدیث ایک چیز نہیں ہیں، بلکہ ان میں وہ فرق ہے جو میں نے گوش گذار کیا، اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔
  آپ کے ملک میں کچھ لوگ فتنہ پرداز ہیں، وہ آکر نوجوانوں کو پریشان کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ حدیث ہے، یہ بخاری کی حدیث ہے، نوجوان پریشان ہوجاتے ہیں کہ اب ہم کیا کریں؟ اس لئے میں نے فرق سمجھایا کہ حدیث اور ہے اور سنت اور۔ اور سنت کو مضبوط پکڑنے کا حکم ہے، حدیث کو نہیں، وہ لوگ اہل حدیث ہوں تو ہوتے رہیں، ہم اہل السنہ والجماعۃ ہیں، پس ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
                اجماع بھی حجت شرعیہ ہے!
 اور اجماع بھی حجت ِ شرعیہ ہے، اور اس کا استناد قرآن سے ثابت ہے، سورة النساء کی(آیت115) ہے کہ جو مسلمانوں کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ پر ہولیا: وہ جہنم رسید ہوگا۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی آیت سے اجماع کی حجیت پر استدلال کیا ہے، اس لئے اہل حق کے نام کا دوسرا جزء والجماعةہے۔
                ناچنا نہیں آنگن ٹیڑھا!
اور اہل حدیث ( غیر مقلدین) اجماع کی حجیت کے قائل نہیں، عرف الجادی کے مقدمہ میں اس پر بحث ہے، مگر وہ صاف انکار نہیں کرسکتے، مسلمان ان کے منہ پر تھوکیں گے، اس لئے کہتے ہیں: ہم قطعی اجماع کو مانتے ہیں، ظنی اجماع کو نہیں مانتے! تو کیا اجماع کا تذکرہ قرآنِ کریم میں ہوگا؟ قطعی ہونے کی اس کے علاوہ کیا صورت ہے؟ یاتواتر سے منقول ہوگا، درانحالیکہ کوئی حدیث متواتر ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، پھر جب خبر واحد جو مفید ظن ہے: حجت ہے تو اجماع جو اسی طرح مروی ہو: حجت کیوں نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ناچنا نہیں آنگن ٹیڑھا!
                قیاس محض آلۂ استنباط ہے:
رہا قیاس تو وہ حجت بایں معنی ہے کہ وہ آلۂ استنباط ہے، وہ ایک ڈوئی ہے جس کے ذریعہ ڈیگوں سے کھانا نکالا جاتا ہے، اور ڈیگیں: قرآن ، سنت اور اجماع امت ہیں۔ قیاس خود کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔وہ آلۂ استنباط مسائل ہے، پس اگر قیاس معتبر نہیں تو یہ تین ڈیگیں بھی معتبر نہیں، ہاں وہ قیاس جس کا کوئی شرعی استناد نہ ہو: وہ حجت نہیں، وہ ابلیس کا قیاس ہے۔
                 آخری چیلنج!
اب آخر میں ایک چیلنج دیتا ہوں، اور قیامت کی صبح تک دیتا ہوں کہ کوئی ایسی حدیث لاؤ، چاہے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو کہ نبیﷺنے حدیث کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہے ۔ حدیثیں یاد کرنے کے اور ان کو روایت کرنے کے فضائل آئے ہیں، مگر ایسی ایک حدیث بھی نہیں ہے: جس میں حدیث کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہو۔ تمام حدیثوں میں سنت ہی کو مضبوط پکڑنے کا حکم دیاہے۔وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین۔

اب تک کے مہربانان کرام