Saturday, October 1, 2011

تعارف تحفۃ الالمعی از مولانا ابوبکر غازی پوری و دیگر

حضرت مولانا ابو بکر غازی پوری دامت برکاتہم تحفۃ الالمعی پر اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے رقم طراز ہیں 
حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم شیخ الحدیث دار العلوم دیوبندوصدر المدرسین: علمی دنیا میں معروف ومشہورومحبوب شخصیت سے متعارف ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی پانچ جلدوں میں ان کی اردو شرح رحمۃ اللہ الواسعہ نے حضرت مفتی صاحب کو بلند علمی مقام عطا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا مدظلہ کو تحریر وتقریر کا منفرد اسلوب عطا کیا ہے، مشکل مسائل کو اپنی سادہ زبان میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ دقیق سے دقیق مسئلہ بھی عام فہم ہوجاتا ہے، یہ وہ کمال ہے جس میں حضرت مفتی صاحب منفرد ہی
ادھر کچھ ہی روز پہلے حضرت مفتی صاحب مدظلہ کا ایک تازہ علمی شاہ کار ترمذی شریف کی درسی تقریر بنام تحفۃ الالمعی کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا، اس کتاب کی اب تک پانچ جلدیں شائع ہوچکی ہیں، جن کے صفحات کی تعداد تقریباً تین ہزار پہونچتی ہے، اور ابھی غالباً اس کی اور بھی دو جلدیں آئیں گی۔
 حضرت مفتی صاحب مدظلہ کے ذمہ عرصہ کئی سال سے ترمذی شریف کا درس متعلق ہے، ان کی درسی تقریر کو ٹیپ کیا گیا اور پھر کیسٹوں کی مدد سے ان کے لائق وفائق فرزند مولانا حسین احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے کاغذ پر منتقل کیا اور پھر مفتی صاحب نے اس پرنظر ثانی کی، نظرثانی بڑی گہرائی وگیرائی سے کی گئی اس لئے مفہوم ومعنی میں شاید وباید ہی کچھ خلل نظر آتا ہے، طباعتی غلطیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، اتنی ضخیم کتاب میں طباعت کی غلطیوں کا نہ ہونا مفتی صاحب دامت برکاتہم کی کرامت ہی کہا جاسکتا ہے۔
  ہماری نظر سے اردو میں متعدد درسی تقریریں مختلف کتب حدیث کی گذری ہیں، مگر یہ پہلی درسی تقریر ہے جس کو فی الحقیقت درسی تقریر کہاجاسکتا ہے، اور تقریروں میں تحریر کا رنگ نظر آتا ہے، مگر یہ درسی تقریر واقعی درسی تقریر معلوم ہوتی ہے، پڑھو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم درس میں بیٹھے ہیں اور مفتی صاحب اپنے منفرد انداز کلام میں ہم سے مخاطب ہیں، نرم لہجہ، تقریر جامع، ہر حدیث کی شرح ضرورت کے مطابق، نہ بہت زیادہ طویل اور نہ حد درجہ مختصر، احادیث پر محدثانہ کلام، فقہی مسائل میں دقت نظر اور وسعت ِ نظر کے ساتھ منصفانہ گفتگو اور ان مسائل کی تشریح وتنقیح، اعتدال وتوازن کے ساتھ مذہب حنفی کی دلائل کی روشنی میں ترجیح، تمام محدثین وفقہاء کرام کا ادب واحترام، گمراہ فرقوں کا تعاقب اور ان کا بلیغ انداز میں رد اور ساتھ ساتھ طلبہ کو پند ونصائح اور ان کی زندگی کو سنوارنے والی باتیں، جگہ جگہ پُرمزاح گفتگو کا انداز اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جس نے اس شرح کو دوسری شرحوں اور درسی تقایر سے ممتاز کردیا ہے۔
 ہمارے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ اس شرح کے مکمل ہوجانے کے بعد پوری ترمذی شریف کا ترجمہ بھی اہل علم اور طلبہ کے ہاتھ میں ہوگا۔ اب تک کسی حدیث کی کتاب کا مکمل اردو ترجمہ کسی حنفی اہل قلم کے ہاتھ سے میری نظر سے نہیں گذرا۔
اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی حیات میں برکت دے، آج کے دور قحط الرجال میں ان کی شخصیت ہم جیسے طلبہ کے لئے باعث ِ عبرت ہے، حضرت مفتی صاحب نے تھوڑے عرصہ میں پورے ایک ادارہ کا کام کیا ہے، اور کرتے جارہے ہیں، ان کی عمر اگر ڈھل رہی ہے تو ان کے قلم کی جوانی اور اس کی رعنائی بڑھتی جارہی ہے، اور یہ سب اللہ کی توفیق ونصرت کے بعد: برکت ہے کہ مفتی صاحب کو بلاوجہ کی مجلس جمانے سے مطلب نہیں ہے، کثرت ِ اختلاط سے ان کو اجتناب ہے، ان کو اپنے وقت کی قدر وقیمت کا اندازہ ہے، مکمل یکسوئی اور دل جمعی کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، سیاست سے مولانا کا دور کا واسطہ نہیں ہے، علمی کام میں لگے رہنا اور مست رہنا یہی ان کا مزاج اور یہی ان کی طبیعت ہے، اور جب آدمی کام کرتا ہے تو اس کی طبیعت باغ وبہار رہتی ہے، مفتی صاحب باغ وبہار والی اسی طبیعت کے مالک ہیں، نہ زاہد خشک ہیں نہ عالم انا پرست، تواضع اور خوش طبعی کے مالک ہیں، مفتی صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کی اس کتاب میں ان کی زندگی کی ان جھلکیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔
  حضرت مفتی صاحب  دامت برکاتہم کے ہم شکر گذار ہیں کہ ان کی کرم فرمائی سے ہمیں اس عظیم اور ضخیم اور بے حد دقیع کتاب کی پانچوں مطبوعہ جلدیں بطور ہدیہ دستیاب ہوئیں اور ہم ان سے خوب استفادہ کررہے ہیں۔بارک اﷲ فی حیاتہ وَمَتَّعَہُ بِنُصرتہ وتائیداتِہ ووفَّقَہ لمزید خَدَمَاتِ دینہ وعلومِ دینہ، وأَدام ظلہ مع صحتہ وسلامتہ وعافیتہ، وجزاہ بما عندہ للمحسین من الخیرات، وقبول الحسنات، والعفو عن السیئات، نہ مجیب للدعوات( آمین)
  حضرت الاستاذ مولانا مفتی عبد الرؤف غزنوی صاحب استاذ حدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی، وسابق استاذ دار العلوم دیوبندنے تحفۃ الالمعی جلد اول پر( جو پاکستان میں زمزم پبلشرز کراچی کے زیر نگرانی شائع ہوئی ہے) پیش لفظ تحریر فرمایا ہے اس میں حضرت مفتی عبد الرؤف غزنوی صاحب مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
1ـ شارحین کتب حدیث کا یہ طرز دیکھا گیا ہے کہ ائمہ کے مذاہب وادلہ بیان کرتے وقت اپنے امام کے علاوہ باقی ائمہ کے حق میں بعض مرتبہ اعتدال پر قائم نہیں رہتے، چنانچہ بعض بڑے اہل علم جیسے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا طرز  فتح الباری  میں اور علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ کا طریقہ عمدة القاری میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان اکابرین کے زمانہ میں کیا ماحول تھا؟ اور کونسا طریقۂ استدلال مناسب تھا؟ یہ وہ حضرات خود ہی بہتر جانتے ہیں، البتہ عصر حاضر جس میں  اسلام کے خلاف آئے دن نئے نئے فتنے سر اٹھارہے ہیں، اس بات کا متحمل ہرگز نہیں کہ ائمہ حق (اہل السنة والجماعة) اور ان کے مسلک کے بارے میں ایسا طریقۂ استدلال اختیار کیا جائے کہ سننے والے یا پڑھنے والے خاص کر نو آموز طلبہ ان ائمہ حق اور ان کے مسلک سے متعلق شکوک واوہام میں مبتلا ہوجائیں، یا خداناخواستہ ان سے بدظن ہوجائیں، اور نتیجةً  ان ائمہ حق کے متبعین کے درمیان ایک محاذ قائم ہوجائے، اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے استاذ محترم حضرت مفتی صاحب مدظلہم العالی کو جنھوں نے '' تحفۃ الالمعی'' میں ایسا طریقہ اختیار کیا ہے کہ ائمہ کرام کے دلائل بھی سامنے آجاتے ہیں اور اختلاف کی بنیادبھی نکھاری جاتی ہے۔ اور ائمہ حق کا مقام واحترام بھی ملحوظ رہتا ہے، اور پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ تمام راستے ایک ہی منزل مقصود کی طرف جاتے ہیں، اور چلنے والے ان راہوں میں سے جس راہ کو بھی اختیار کرکے اس پر چلیں گے وہ بتوفیق اللہ منزل ِ مقصود تک پہنچ جائیں گے، بلکہ یہ مختلف راستے لوگوں کے لئے سہولت ورحمت خداوندی کے ذرائع ہیں۔
2ـ حدیث پڑھانے والوں کی ایک عادت یہ چلی آرہی ہے کہ سال کے شروع میں اتنی لمبی تقریریں فرماتے ہیں کہ زیادہ تر تطویل کی وجہ سے طلبہ کے لئے غیر مفید اور ناقابل فہم ہوا کرتی ہیں، اور سال کے آخر میں چونکہ کتاب کا اکثر حصہ باقی رہتا ہے اور ختم کرانا ضروری ہوتا ہے اس لئے اتنی مختصر تقریریں ہوتی ہیں کہ زیادہ اختصار کی وجہ سے طلبہ کی سمجھ میں نہیں آتیں، بلکہ بعض مرتبہ تو صرف عبارت پر بھی اکتفا کیا جاتا ہے۔
 عصر حاضر کے مشہور محدث فضیلۃ الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ حلبی رحمہ اللہ نے ١٤١٥ھ میں جب ان سے میری آخری ملاقات ریاض سعودی عرب میں ہوئی اس طرز پر شدید تنقید کی اور مجھے حکم دیا کہ تم سے جو ہوسکے کوشش کرو اور میری یہ گذارش دوسرے حضرات تک بھی پہنچادو کہ حدیث پڑھانے کے طرز میں اعتدال پیدا کیا جائے، چنانچہ اس سلسلہ میں میں نے ایک عربی مضمون میں جو عربی مجلہ البینات( شمارہ نمبر ٤ سن ١٤٢٥ھ) میں شائع ہوچکا ہے شیخ کے حوالہ سے اس کا ذکر کیا ہے اور وہ مضمون دار العلوم دیوبندکے عربی مجلہ'' الداعی'' شمارہ نمبر ٣و٤ ماہ ربیع الاول، ربیع الثانی ١٤٢٦ھ میں بھی شائع ہوچکا ہے۔
 اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب مدظلہم العالی کو اجر عظیم عطا فرمائے جنھوں نے '' تحفۃ الالمعی'' میں ایسا نچوڑ پیش فرمایا ہے جس میں اختصار ووضاحت کے ساتھ عبارت کا ترجمہ اور کتاب کا حل بھی موجود ہے، مشہور مذاہب کا بیان اور ادلہ بھی دستیاب ہیں، اہم الفاظ کی صرفی، لغوی اور نحوی تحقیق بھی حسب ضرورت کی گئی ہے، اور بے جا تطویل سے احتراز کیا گیا ہے، لہٰذا اگر مدرس اس طریقہ کو اپنائے گا تو اعتدال کے ساتھ وقت مقررہ پر کتاب ختم ہوسکتی ہے، اور طلبہ بھی شروع سے لے کر آخر تک تدریس سے مستفید ہوسکتے ہیں، پس یہ کتاب صحیح معنی میں '' سمجھ دار کی سوغات'' اور اسم بامسمّٰی  ہے۔
حضرت مولانا عمید الزماں صاحب رحمہ اللہ تحفۃ الالمعی پہ اپنے تاثرات بیان فرماتے ہوئے رقم طرز ہیں:
زمیل گرامی قدر حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کی زیر تبصرہ کتاب سال رواں کے شروع میں منظر عام پر آئی تھی، لیکن ان کی مہربانی سے اسے دیکھنے کا اتفاق اب ہوا ہے، حالانکہ کتاب کی عظمت واہمیت اور مصنف یا شارح کے علمی مقام کا تقاضا تھا کہ اسے بلاتاخیر حاصل کرکے فکر وبصیرت کا سامان بنایا جائے۔
   اس کتاب کی دو جلدیں دستیاب ہوئی ہیں اور ان میں سے ہر دونوں جلدیں بالترتیب ٦٠٠ اور٦١٦ صفحات پر مشتمل ہیں اور یہ دونوں جلدیں شروع کتاب سے ابواب الزکاة( مکمل) تک پر مشتمل ہیں۔ جلد اول کے شروع میں پہلے عرض مرتب کے چند صفحات کے بعد ٥٥ صفحات پر مشتمل مصنف یا شارح کے قلم سے ایک طویل مقدمہ زیب کتاب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مقدمہ اپنے آپ میں ہی ایک مکمل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے حدیث کی حیثیت، حجیت، اس کی تدوین وترتیب کے تاریخی مراحل پر فن کی حیثیت سے، حدیث کی غرض وغایت وغیرہ پر عمومی انداز میں اور ان مباحث کے پہلو بہ پہلو دوسرے بہت سے اہم اور معرکة الآراء اور پیچیدہ ومختلف فیہ مسائل پر نہایت محققانہ کلام کیا ہے۔ ان مسائل میں خاص طور پر تقلید کی ضرورت واہمیت پر موصوف نے اعلی اور استدلالی انداز میں علمی توازن کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ وحی کے تعلق سے وحی اور صاحب وحی (رسول اللہ B) کے مقام پر جس علمی انداز میں انھوں نے بحث کی ہے، اس سے صاحب فہم اور کدوعناد سے پاک ایسے لوگوں کے ذہنی دریچے وا ہوجانے چاہئیں جو منکرین حدیث کی پھیلائی ہوئی ضلالت وگمراہی کی تاریکیوں کو روشنی کا بدل تصور کر بیٹھے ہیں۔
  مولانا پالن پوری صاحب ایک طویل عرصے سے دار العلوم دیوبندجیسے عالمی سطح کے عظیم ومشہور ادارے میں حدیث کی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ترمذی جیسی اہم کتاب ان سے منسلک ہے، جس کی تدریس کا وہ صحیح معنی میں حق ادا کرتے رہے ہیں، اس کی سب سے بڑی شہادت دورئہ حدیث کے طلبہ کی مولانا موصوف کے تعلق سے گرویدگی ہے۔ ان کا جو جوہراب تک ترمذی کی تدریس میں کھل کر دنیا کے سامنے آتا رہا ہے، اب وہ زیادہ مضبوط اور واضح شکل میں تحریری طور پر سامنے آگیا ہے، بظاہر تو یہ کتاب ترمذی کی شرح ہے لیکن حقیقت میں اس میں مختلف ابواب کے تحت شرعی امور ومعاملات پر گفتگو کے ضمن میں ایسے دقیق اور معنی خیز نکات شامل ہوگئے ہیں جن کے لئے درجنوں ضخیم مجلدات کی پیہم ورق گردانی بھی کافی نہیں ہے۔
  مفتی صاحب فقیہ بھی ہیں اور محدث بھی۔ اس لئے فقہی احکام ومسائل میں ان کے یہاں انتہائی توازن اور اعتدال پایا جاتا ہے۔ اس کتاب میں جابہ جا ترجیح کے بجائے انھوں نے حنفیہ اور ائمہ ثلاثہ کے مابین توفیق ومطابقت کی کوشش کی ہے۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے شاہ ولی اللہ کا باضابطہ اثر قبول کیا ہے۔ اس وقت وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے سب سے بڑے شارح ہیں، دیگر علمی خدمات کے علاوہ صرف حجۃ اللہ البالغہ کی شرح '' رحمۃ اللہ الواسعہ'' ہی    حضرت مفتی صاحب کی ایسی خدمت ہے جو ان کے نام کو علمی حلقوں میں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔
 عربی اور اردو میں علمائے ہندو پاک کی طرف سے ترمذی کی کئی قابل ذکر شرحیں موجود ہیں۔ اردو میں مولانا تقی عثمانی صاحب کی درس ترمذی اور عربی میں معارف السنن( علامہ یوسف بنوری ) اور تحفۃالاحوذی( مبارک پوری) حدیث کے طلبہ، اہل ذوق ومستفیدین میں مقبول ہیں، تحفۃ الالمعی اس سلسلے کی ایک نہایت نمایاں اور قیمتی کڑی ہے، امید ہے کہ طلبہ واہل ذوق بیش از بیش اس سے مستفید ہوسکیں گے اور یہ علمائے دیوبند کی حدیث کے باب میں خدمات اور کارناموں کا ایک اہم باب شمار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کو اس نوع کی قیمتی علمی اسلامی خدمات کی مزید توفیق عطا فرمائیں
   حضرت مولانا احمد صاحب ٹنکاروی زید مجدہ استاذ حددیث جامعہ ہانسورٹ گجرات رقم طراز ہیں:
 بفضلہ تعالیٰ جامعہ ہانسوٹ، گجرات میں ترمذی شریف احقر سے متعلق ہے اس لئے بہ بطور خاص تحفۃ الالمعی کی ہر دو جلد سے  استفادہ کے خوب مواقع نصیب ہوئے، من وعن مطالعہ کیا، چند اہم خصوصیات  سے میں بہ طور خاص متأثر ہوا جن کو درج کررہا ہوں:
1:  حدیث شریف اور امام ترمذی کے کلام کا ترجمہ مطلب خیز اور دل کو موہ لینے والا ہے۔ طبیعت مچل جاتی ہے۔
2:  دور حاضر کی نفسیات اور اصطلاحات ومحاورات کی رعایت نے چار چاند لگادئیے ہیں۔
3: جابجا کلیات وضابطے تحریر کردئیے ہیں جو حدیث فہمی اور بصیرت کے لئے انتہائی معین ہیں۔ جس کو میں کتاب کی روح سمجھتا ہوں۔
4: احکام تشریعیہ اور ان کے اسرار و علل پر محققانہ و حکیمانہ کلام ہے مظام شریعت کے کئی پہلو پہلی مرتبہ سمجھ میں آئے۔
5: ہر سطرقیمتی نکات پہ مشتمل ہے اور طویل علمی و تدریسی تجربات کی آئینہ دار ہے۔
6: بیان القرآن کی طرح بین القوسین اضافے بہے با معنی اور ایرادات مقدرہ کو نہایت خوبی کے ساتھ دفع کرنے والے ہیں۔
7: قدر مشترک مضامین کے علاوہ ضروری مباحث پر اکتفا کیا گیا ہے ۔
8: زبان سہل الحصول اور زود ہضم ہے ۔
9: مصطلحات حدیث کی تشریح بہت انمول اور اچھوتی ہے۔
10: اختلاف ائمہ کے بجائے مدارک اجتہاد کی نشاندہی نے کتاب کو اسم بامسمی بنا دیا ہے ہمارے طریقہ تدریس پر وارد کئی اعتراض ختم کر دئے ہیں۔
  حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی  کی اسرار شریعت پر جامع ترین کتاب ''حجۃاللہ البالغہ'' کی اردو میں تشریح وترجمانی کرکے آپ نے فکر ولی اللّٰہی کے حامل تمام افراد کی طرف سے ایک زبردست علمی قرضہ ادا کردیا ہے۔
  خدا کرے تفسیر قرآن کے سلسلے میں جلالین جیسی درسی کتاب کی شرح آپ کے قلم بافیض سے صادر ہو جو فن تفسیر میں بھی شاہکار ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز۔
کتاب منگوانی ہو تو سر ورق پہ موجود رابطہ کی تختی پہ کلک فرمائیں

اب تک کے مہربانان کرام