Wednesday, January 30, 2013

تعارف "نقوش حيات"

استاذ الاساتذہ، صدر المدرسین، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃ کاملۃ ونور اللہ مرقدہ ان خوش بخت، منتخب اور برگزیدہ شخصیات میں سے تھے جنکو اللہ تعالٰی نے طویل خدمت دین کا موقعہ نصیب فرمایا، یہی وجہ ہے کہ آج کے بڑے بڑے اساتذہ بھی انکے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے والوں میں سے ہیں ـ پچھلے دنوں چمنستان دیوبند میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا آیا اور حضرت مولانا قاری شفیق الرحمن کے لائق و فائق صاحب زادے و خلف الصدق مولانا خلیل الرحمن صاحب زید مجدہ نے حضرت رحمہ اللہ کی مکمل، مفصل اور دس ابواب پہ مشتمل ایک سوانح مرتب کرکے حضرت رحمہ اللہ کی خدمت میں جماعت دیوبند کے ہر اس فرد کی طرف سے نذرانۂ عقیدت پیش کیا جس نے حضرت رحمہ اللہ کے علمی سمندر سے اپنی تشنہ لبی دور کی ہے، مؤلف زید مجدہ نے حضرت والا تبار رحمہ اللہ کی زندگی کے کئ پہلووں اور گوشوؤں کو بڑی محنت اور عرق ریزی سے چھانا پھٹکا اور بڑے سلیقے سے انکو قارئین کے سامنے پیش کیاـ مؤلف کتاب و سوانح نگار کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

راقم الحروف کو حضرت شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان صاحب سے بچپن ہی سے عقیدت و محبت تھی، نو یا دس سال کی عمر تھی اسی وقت سے والد محترم حضرت مولانا قاری شفیق الرحمن صاحب کے توسط سے آپکی زیارت و ملاقات کا برابر موقع ملتا رہا، اس عرصہ میں آپکو بہت قریب سے دیکھا، پرکھا اور برتا، جس سے آپکی عقیدت و محبت دل میں راسخ ہوتی چلی گئ، آپکی دلآویز اور حسین شخصیت میں پنہاں اوصاف و کمالات، آپکے خاندانی احوال، تعلیم و تربیت، زمانۂ تدریس، آپکے چند نامور اور مشہور تلامذہ کا تعارف، ارشاد و ملفوظات اور کوئ اہل علم کے تاثراتی مضامین پر مشتمل یہ سوانح درحقیقت عقیدت و محبت اور رشتۂ تلمذ کے پاکیزہ جذبات کا اظہار ہے ـ یوں بھی کہہ سکتےہیں کہ یہ سوانح اس عظیم المرتبت شخصیت کی خدمت میں ایک حقیر سا نذرانۂ عقیدت ہے جس کے احسانات سے جماعت دیوبند کا ہر فرد زیر بار ہے اور جس نے نصف صدی سے زیادہ تک اپنے علمی سمندر سے امت کے ایک بڑے طبقے کو سیراب کیا


کتاب پر ناشر کا نام نہیں لکھا گیا ہے، قیمت دو سو بچیس روپے درج کی گئ ہے 


تعارفِ فقہی ضوابط

قارئین جانتے ہونگے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ کے خصوصی کرم فرماؤں میں سے ہیں، انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب: تاریخ بغداد میں ایک باب میں بطور خاص  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کئے ہیں، منجملہ ان کے ایک اعتراض یہ ہے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں روایت لاتے ہیں کہ شام سے ایک شخص امام  صاحب کے پاس آیا، آکر اس نے کہا: میں آپ سے ایک ہزار مسئلے پوچھنے آیا ہوں، امام صاحب نے فرمایا: پوچھو..........روایت ختم
اس روایت میں بظاہر کوئ اعتراض نہیں لیکن اگر آپ اس روایت کے "بین السطور" میں غور فرمائیں تو آپکو اعتراض نظر آئے گا اس طور پر کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ بالواسطہ یہ فرمانا چاہ رہے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کو ایک ہزار مسئلوں کا جواب دینے کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں، وہ ہر مسئلہ کا جواب قیاس (رائے) سے دیتے ہیں تو ان ہزار مسائل کا جواب بھی قیاس (رائے)سے دیدیں گے، کیا مشکل ہوگی ان کیلئے؟؟؟  اس روایت کے جواب میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ کوئ اعتراض نہیں ہے، کیونکہ آدمی کو جب اصول و کلیات محفوظ اور ازبر ہوجاتےہیں تو پھر فروعات و جزئیات کا جواب دینا آسان ہوجاتاہے ـ ثانیا یہ بھی کیا ضروری ہے کہ امام صاحب ہر مسئلہ کا جواب دے ہی دیں "میں نہیں جانتا" یہ بھی تو ایک جواب ہے، امام مالک رحمہ اللہ سے بھی ایک مجلس میں چالیس مسئلے پوچھے گئے تھے، آپ نے سب کا یہی جواب دیا کہ میں نہیں جانتا

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فروعات و جزئیات کے جواب کے دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ ہر ہر فروعی مسئلہ اور ہر ہر جزئی کا جواب کتاب سے مراجعت کرکے یا اپنے ذہن پہ زور ڈال کے دیا جائے، ظاہر ہے یہ کافی ورق گردانی اور "ذہنی مشق" قسم کا طریقۂ کار ہے
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جواب دینے والے کی نظر فروعات کے بجائے فروعات جن سرچشموں سے پھوٹ رہی ہیں (اصول) ان پہ، جزئیات جن کلیات سے نکل رہی ہیں ان پہ نظر رہے، اصول و کلیات پر نظر رکھنے والے شخص کو ہر ہر فروعی مسئلہ یا ہر ہر جزئی خاص یاد رکھنےکی ضرورت نہیں ہوتی، وہ پوچھے گئے مسئلہ فرعی کا جواب اس کی "اصل" کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی جلدی اور آسانی سے دیدیتا ہے ـ یہی اصول و کلیات جنکو سامنے رکھ کر کسی بھی مسئلہ فرعی اور جزئی کا جواب دیا جاتا ہے انکو اصطلاح فقہاء میں قواعد اور ضوابط کہا جاتاہے، عربی زبان میں اس موضوع پر کافی کچھ لکھا گیا ہے، قواعد و ضوابط اور اشباہ و نظائر پر مستقلا تصنیفات موجود ہیں مگر اردو کا دامن ابھی تک اس موضوع سے خالی چلا آرہا تھا ـ زیر نظر کتاب اسی خالی دامن میں اولین نقش و نگار کی حیثیت رکھتی ہے، مولف کتاب نے براہ راستہ عربی مصادر کا مطالعہ کرکے منتشر ہیروں کو چن چن کر قارئین، طلبہ اور اساتذہ کیلئے گراں قدر ہار ترتیب دیا ہے جس کی رعنائی و زیبائ کو بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم پیش لفظ میں ارقام فرماتےہیں:

"یہ کتاب طلبہ کیلئے تو مفید ہے ہی اساتذہ کیلئے بھی مفید ہے، اگر اساتذہ اسکا مطالعہ کریں تو انکی فقہ کی تعلیم میں چار چاند لگ جائیں اور ان کیلئے بکھری ہوئ جزئیات کو ایک لڑی میں پرو کر پیش کرنا آسان ہوجائے گا"

کتاب کے دو حصے آچکے ہیں جن میں کتاب الہبہ تک کے ابواب کا احاطہ کیا گیا ہے ـ 

اب تک کے مہربانان کرام