Thursday, January 5, 2012

فلسطین کسی صلاح دین کے انتظار میں

 بحر روم کے کنارے شام سے مصر تک پھیلی ہوئی ایک طویل ساحلی پٹی ہے جسے فلسطین کہتے ہیں۔27 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ پر مشتمل یہ سرزمین انبیاء و رسل کا مرکز رہی ہے ،اسی مقدس خطہ ارض میں وہ شہر واقع ہے جسے قدیم تاریخ میں "ایلیا"یرو شلم، عربی میں القدس اور اردو میں بیت المقدس کہا جاتا ہے۔بیت المقدس تینوں ہی آسمانی مذا  ہب ا سلام،عیسائیت ا ور یہودیت کے نزدیک بے حد محترم ہے،اہل اسلام کے نزدیک اس لئے کہ یہیں مسجد اقصی ہے جو ان کا قبلہ اول بھی ہے اور جائے معراج بھی،مسیحیوں کے نزد یک اس وجہ سے کہ اسی میں ان کا سب سے مقدس چرچ "کنیسہ قیامہ "ہے جس میں بقول ان کے حضرت عیسی علی نبینا و علیہ السلام مصلوب و مدفون ہوئے اور جس پر قبضہ کیلئے متحدہ یورپ نے طویل خوں ریز صلیبی جنگیں لڑیں اور بالآخر بطل جلیل حضرت صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شرم ناک اور تباہ کن شکست سے دوچار ہو۔ اور یہودیوں کے نزدیک اس بنا پر کہ یہاں ہی کبھی وہ ہیکل سلیمانی تھا جس کی تباہی کو یاد کر کے وہ آج بھی مسجد اقصی کی مغربی دیوار کے پاس گریہ و زاری کرتے ہیں اور اس کی تعمیر نو کو عظیم تر اسرائیل کی خشت اول گردانتے ہیں
       
فلسطین کے اصل باشندے فینقی اور کنعانی عرب ہیں جو قدیم زمانے میں جزیرۃ العرب سے اٹھ کر اس ویرانے میں آباد ہوئے ،اور عربوں اور مسلمانوں کا اقتداراور دلچسپی بھی اس سر زمین سے سب سے زیادہ رہی ہے، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف ادوار پر مشتمل یہودیوں کا عرصہ اقتداراس علاقے پر پانچ صدی سے زائد نہیں ہے،عیسائیوں کا دور حکومت اس سے بھی کم ہے جو  236 ء میں قیصر روم قسطنطین اعظم کے قبول عیسائیت سے شروع ہو کر خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ذریعہ  637ء میں فتح بیت المقدس کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے جبکہ مسلمانوں کی مدت حکمرانی بڑی طویل ہے،  637 سے لے کر پہلی جنگ عظیم میں  1917تک تقریبا تیرہ صدی مسلمان بلا شرکت غیرے اس کے فرماں روا رہے، اس دوران صرف ایک موقعہ ایسا آیا جب پہلی صلیبی جنگ کے نتیجہ میں بارویں صدی عیسوی میں 88 سال کیلئے بیت المقدس عیسائیوں کے زیر قبضہ چلا گیا، اس کے علاوہ مسلمانوں نے اس شہر کو جو اہمیت دی وہ کسی اور کے یہاں نظر نہیں آتی، فتح بیت المقدس کے وقت خلیفۂ وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے اور غالبا یہ ان کی حیات مبارکہ کا سب سے طویل سفر تھا، قیصر و کسری سے جنگ میں بھی انہوں نے یہ دلچسپی نہیں دکھائی تھی، کئی اموی خلفاء نے تبرکااپنی اخلافت کا اعلان اور بیعت یہیں کی، احاطہ حرم کی جملہ تعمیرات اسلامی دور کی ہیں، مسجد اقصی خلیفہ عبد الملک اور گنبد صخرہ ولید بن عبد الملک نے تعمیر کیا، اس کے علاوہ شہر اور اس کے مضافات میں پھیلے ہوئے بے شمار مسافر خانے،تعلیمی ادارے،ہسپتال اور زیارت گاہیں مسلمانوں ہی کے جذبۂ خیر کا ثمرہ ہیں، اس پورے عرصہ میں مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو خطے میں آباد عیسائی و یہودی رعایا نے خوش حالی،امن و امان اور آزادی و مساوات کے خوب مزے لوٹے اور ان کے ساتھ کسی طرح کی کوئی تفریق و امتیاز نہیں برتا گیا، جب کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے اپنے دور میں ایک دوسرے پر ظلم و ستم کی نئی نئی داستانیں رقم کیں
پھر ایک وقت آیا کہ یورپ مذہبی بندشوں کو توڑ کر روشن خیال اور لا مذہب ہوگیا اس وقت مختلف ممالک میں منتشر یہود کو کچھ راحت ملی اور انہیں اپنی شیرازہ بندی اور ایک قومی وطن بنانے کی فکر ہوئی، یہ احساس سب سے پہلے "ویانا" کے ایک یہودی صحافی "تیوڈر ہرزل" کو ہوا، اس نے  1896ء میں" ریاست یہود" کے نام سے ایک کتاب لکھ کر صہیونیوں کیلئے قومی وطن کا ٹھوس تصور پیش کیا، اس نے سلطنت سلیمانی کو بنیاد بنا کر ریاست کی حدود دریائے فرات سے دریائے نیل تک مقرر کیں، اس کتاب نے  یہودیوں میں ایک نیا جوش بھر دیا، انہوں نے ہرزل کی زیر سرپرستی 1897ء میں سوئزر لینڈ کے شہر "باسل"میں ایک عالمی کانفرنس منعقد کی اور مقصد کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگانے کا عہد کیا، بلاشبہ یہ کانفرنس تاریخ صیہونیت کا سنگ میل ہے،اس کے بعد ہی انہوں نے مختلف مراحل سے گذرتے ہوئےجنگ عظیم دوم میں اپنے مالی اور ٹیکنکل تعاون کے ذریعہ برطانیہ پر دباؤ بنایا کہ وہ انکی قومی وطن کی ضرورت کو تسلیم کرے، چنانچہ 1917ء میں جنگ کے اختتام پر جبکہ فلسطین برطانیہ کے قبضے میں جا چکا تھا برطانوی وزیر خارجہ"جیمز بالفور" نے ان کیلئے قومی وطن کے قیام کا اعلان کر دیا جو تاریخ میں" اعلان بالفور" کے نام سے مشہور ہے حالانکہ اس وقت یہودی مجموعی آبادی کا محض پانچ فیصد تھے۔ تب سے مسلسل برطانیہ کے زیر سایہ ان کی برق رفتار نقل مکانی ہوتی رہی تا آنکہ 1947ء میں برطانیہ نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی تحویل میں دے دیا جس نے 1948ء میں اس کی تقسیم کا اعلان کر دیا اور یوں عالمی نقشہ پر اسرائیل نام کے ایک ناجائز ملک کا جنم ہوا
زیر نظر کتاب "فلسطین کسی صلاح دین کے انتظار میں" اسی موضوع پر ایک تازہ تصنیف ہے جس کے مصنف ہیں ملک کے معروف دانش وراور اہل قلم گرامی مرتبت حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی مد ظلہ، موصوف نہ صرف صاحب طرز انشاء پردازاور عربی و اردو زبان ادب کے مایہ ناز پروفیسر ہیں بلکہ مسئلۂ فلسطین پر لکھنے والے چند عالمی سطح کے لوگوں میں ایک بہت نمایاں نام آپ کا بھی ہے، فکری پختگی،اسلوبی انفرادیت،تحقیقی ذوق،وسعت مطالعہ اور ملی تڑپ آپ کے وہ امتیازات ہیں جنہوں نے آپ کو ایک منفرداور بین الاقوامی مقام عطا  کیاہے، تقریبا تیس سال سے دار العلوم دیوبند کے عربی ترجمان ماہ نامہ" الداعی"  کے صفحات پر ملی اور عصری مسائل پر بحیثیت چیف ایڈیٹر مسلسل لکھ رہے ہیں اور خوب لکھ رہے ہیں، عربی حلقوں میں دار العلوم کی ترجمانی اور حضرات اکابر دیوبند کے علوم کو بلیغ عربی میں منتقل کرنے کا جو نایاب کارنامہ موصوف نے انجام دیا ہے وہ مادرعلمی اور اس کے مسلک سے ان کی والہانہ عقیدت کا خراج بھی ہے اور دنیا میں پھیلی ہوئی قاسمی برادری پر ایک احسان عظیم بھی
ہم دست کتاب در اصل فاضل مصنف کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے نے اپنے رسالے میں کلمۃ المحرر، کلمۃ العدد اور مقبول ترین کالم" اشراقہ" کے تحت مختلف اوقات میں قلم بند کئے، حلات کے اتار چڑھاؤ کے مطابق لکھے گئے یہ مقالات در حقیقت قضیۂ فلسطین کے تیس سالہ نشیب و فراز کی مکمل روداد ہیں، اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ المیہ فلسطین کیوں پیش آیا،؟اس کے پیچھے کون سے طاقت ور عوامل کار فرما تھے۔عربوں کی پیہم پسپائی،انکی متعدد ذلت آمیز شکست، کیمپ ڈیوڈ اور اوسلومعاہدات کے خفیہ مقاصد، محمود عباس کا انتخاب اور یہودیوں کے مستقبل  کے خوف ناک عزائم کی حیران کن تفصیلات اہل دانش کیلئے خاصے کی چیزیں ہیں
انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس حوالے سے مغرب کی پالیسی ہمیشہ دوغلی رہی ہے، اقوام متحدہ نے منافقانہ کردار ادا کیا ہے اور واحد سپر پاور امریکہ خود سے زیادہ اسرائیل کو تحفظ دینے کی سعی کی ہےجس کا اسے فی الحال بھی اور آئندہ بھی کڑوا پھل چکھنا پڑے گا، انہوں نے عالم اسلام کے حکم رانوں کو انکی کاہلی،عیش کوشی، بےتدبیری اور ناعاقبت اندیشی پرخوب کوسا ہے اور خدا کی عطا کردہ ان کی مادی و معنوی دولت  کا حوالہ دے کر انہیں ذرۂ نامقدار اسرائیل کے ساتھ مصالحانہ رویہ اپنانے پر کڑی تنقید کی ہے،انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح ہمارے قابل فخر اسلاف نے شب و روز کی راحتوں کو پس انداز کر کے بیت المقدس کو صلیبوں کے 88 سالہ منحوس قبضے سے وا گذار کرایا اور کس طرح عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے صیہونیوں کے منصوبوں کو خاک میں ملاتے ہوئے ان کے نمائندوں کو یہ کہہ کر دھتکار دیا تھا کہ جب تک آل عثمانی کا کوئی فرد غیور زندہ ہے اس وقت تک ارض فلسطین کیاایک بالشت زمین بھی تمہیں نصیب نہیں ہوگی
کتاب  کےآغاز میں مقدمے کے عنوان سے لائق ایڈیٹر نے جو کچھ تحریر کیا ہے وہ اختصار، جامعیت شستگی،اور روانی کا شاہ کار ہے اس کو شراع کر نے کے بعد قاری ختم کئے بغیر نہیں رہ سکتا، کتاب کے مباحث کو اس میں اس طرح سمیٹا گیا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد مسئلے کے جملہ پہلؤوں سے واقفیت بسہولت اور بہت جلد ہوجاتی ہے۔ اس طرح23 صفحات پر مشتمل یہ نفیس پیش لفظ میرے نزدیک کتاب کا عطر ہے اور خلاصہ
اسی طرح کتاب کے شروع میں شائع شدہ مضامین کے علاوہ تین نئے لازمی مضامین کا اضافہ در حقیقت کتاب کا بہترین تکملہ ہے جس میں بیت المقدس،ارض فلسطین اور قیام اسرائیل سے اب تک یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے تمام قتل عاموں کی پوری تفصیل درج ہے۔ اس اضافے سے نہ صرف کتاب کی قدر و قیمت دو چند ہوئی ہے  بلکہ قارئین کیلئے متعلقہ مسئلے پر ایک مسلسل اور مربوط معلومات کی راہ آسان ہوگئی ہے
زیر بحث قضیے پر سیر حاصل گفتگو کے بعد دیدہ ور قلم نے موجودہ صورت حال کا دردمندانہ تجزیہ کیا ہے اور فلسطین کے دونوں  متحارب گروپوں حماس اور الفتح کا رونا رویا ہے، ان کے خیال میں حماس ارض مقدس کی بازیابی کیلئے ایک مخلص،متدین، سرفروش اورہوش مندجماعت ہے جب کہ الفتح ملحد،موقع پرست،سودے بازاور مسئلے کے منصفانہ حل کیلئے سب سے بڑا روڑہ۔ اور شاید دونوں کی یہی خصوصیت ایک کو چشم مغرب کا تنکا بنائے ہوئے ہے اور دوسرے کو اس کا تارہ۔ طویل تاریخی مطالعےاور حالات کے گہرے تجزیےکی روشنی میں آخر میں انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس حوالے سے کسی نوع کے معاہدات و مذاکرات بالکل لاحاصل اور بے سود ہیں جن کا مقصد حریف کو ڈھیل دینے اور طاقت فراہم کر نے کے سوا کچھ نہیں، مسئلے کا حل صرف مجاہدانہ جوش و خروش اور جہاد و قتال کا جذبۂ صادق ہی ہے اور دشمن فقط اسی کی زبان سمجھتا ہے اس لئے بقول ان کے فلسطین پھر کسی صلاح الدین کے انتظار میں ہے
مبصر:وصی احمد قاسمی 
بشکریہ: محدث عصر

0 تبصرہ جات:

اگر ممکن ہو تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اب تک کے مہربانان کرام