Thursday, November 3, 2011

تعارفِ علمی خطبات


اللہ جل شانہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اور انھیں گمراہی سے بچانے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا ، جس کی آخری کڑی فخر کائنات حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔ آپؐ نے اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچایا اور بندوں کا رشتہ معبود حقیقی سے جوڑا، آپؐ کے بعد علمائے کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوئی، انھوں نے بھی ہر زمانہ میں اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دیا، کتاب وحکمت کی تعلیم کے ساتھ وعظ وارشاد سے بھی تزکیۂ نفوس فرمایا۔ اور العلماء ورثۃالأنبیاء کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کردیا۔
     انہی عظیم المرتبت علماء میں سے ایک تابندہ شخصیت: محدث جلیل، متکلم اسلام، شارح حجۃ اللہ البالغہ، فقیہ النفس حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم (شیخ الحدیث وصدر المدرسین  دار العلوم دیوبند  )کی ہے۔ جن کے مواعظ کی دو جلدیں  بنام' علمی خطبات' ہدیۂ ناظرین کی جارہی ہے، حضرت موصوف کو حق تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے اور کمالات سے نوازا ہے، آپ کا ذوق لطیف، طبیعت سادہ اور نفیس ہے، مزاج میں استقلال واعتدال ہے، حق وباطل اور صواب وخطا کے درمیان امتیاز کرنے کی وافر صلاحیت رکھتے ہیں اور حقائق ومعارف میں یکتائے زمانہ ہیں، چونکہ حضرت والا نے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ کی مایہ ناز تصنیف 'حجۃ اللہ البالغہ' کی شرح لکھی ہے، جس کا نام ' رحمۃاللہ الواسعہ' ہے( یہ شرح پانچ جلدوں میں مطبوعہ اور مقبول خاص وعام ہے) اور ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ دار العلوم دیوبند  میں پندرہ بیس سال تک اس کا کامیاب درس دیا ہے، اس لئے حکمت شرعیہ سے آپ کو خاص مناسبت ہے، چنانچہ موصوف کا ہر درس، ہر تقریر اور ہر تحریر علمی نکات ولطائف اور اسرار وحکم سے لبریز ہوتی ہے۔ موصوف آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے رازہائے سربستہ سے اس طرح پردہ اٹھاتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے جیسے علوم وفنون کا ایک بحر ذخار موجزن ہے، خدا وندقدوس نے آپ کو رسوخ فی العلم کے ساتھ مرتب گفتگو کا سلیقہ بھی عطا فرمایا ہے، جس کی نظیر نہ صرف ہم عصروں میں بلکہ زمانہ ماضی میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ آپ کی ہر تقریر اور ہر تحریر حسن ترتیب اور مشکل کو آسان بنانے میں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے اور گنجینۂ علم وحکمت ہوتی ہے۔
     آپ کے سحر آفریں، علم وحکمت سے لبریز، لاجواب اور بے مثال خطابات کو عوام وخواص بہت دلچسپی اور شوق سے سنتے ہیں، جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان موصوف مخصوص افہام وتفہیم اور حکیمانہ اسلوبِ بیان کی وجہ سے خاص طور پر مقبول ہیں۔ بظاہر تقریر میں نہ جوش وخروش ہوتا ہے، نہ پُرتکلف انداز بیان، نہ خطیبانہ ادائیں، مگر خطابات اس قدر مؤثر اور مسحور کن ہوتے ہیں کہ سامعین سراپا گوش بن جاتے ہیں اور اہل علم عش عش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تدریس وتقریر میں جوڑ نہیں، جو تدریس میں کامیاب ہوتا ہے وہ تقریر میں ناکام رہتا ہے، اور جو تقریر میں ید طولی رکھتا ہے اس کا درس پھیکا پڑجاتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تدریس کا انداز برہانی ہوتا ہے اور تقریر کا خطابی، برہانی یعنی دلائل سے مضبوط بیان، اور خطابی یعنی دلوں کو چھولینے والا انداز، چاہے کہی ہوئی باتیں کمزور ہی کیوں نہ ہوں، درس میں کمزور باتیں نہیں چلتیں، مضبوط باتیں ہی تدریس میں جان ڈالتی ہیں، اور خطاب میں اگر مضبوط باتیں بیان کی جائیں تو بیان میں جوش پیدا نہیں ہوتا اس لئے خطاب میں خطابی باتیں ضروری ہوتی ہیں۔
    غرض: دونوں خوبیوں کو جمع کرنا ضدین کو جمع کرنا ہے، پھر اگر تدریس غالب آجاتی ہے تو عوامی خطاب میں بھی وہی رنگ جھلکتا ہے۔ اور خطابی انداز غالب آجاتا ہے تو مختصر المعانی کے درس میں بھی سیرت النبی کا مزہ آتا ہے۔
   حضرت مفتی صاحب مدظلہ پر تدریس کاانداز غالب ہے، وہ ہمیشہ برہانی باتیں بیان کرتے ہیں، کبھی کوئی کچی بات نہیں کہتے، آپ کی تمام تقریریں آپ کو علمی مواد سے بھرپور ملیں گی، اور ایسی دقیق باتیں آپ کو ان خطابات میں ملیں گی جو آپ نے بہت کم کتابوں میں پڑھی ہونگی، اس لئے  ان خطبات کا نام 'علمی خطبات' رکھا  گیاہے، یعنی حکم وحکمت سے لبریز تقریریں، قارئین کرام کو بھی یہ تقریریں اسی نقطۂ نظر سے پڑھنی چاہئیں۔
   اور تدریس اور علمی انداز خطاب اگرچہ خشک ہوتا ہے، مگر حضرت والا کے بیانات خشک نہیں ، کیونکہ حضرت والا اپنے بیان میں دو باتوں کا خاص اہتمام فرماتے ہیں:
     ایک: مشکل مضمون: آپ دو تین بار بیان کرتے ہیں، کبھی بلفظہ مکرر بیان کرتے ہیں اور کبھی بالفاظ دیگر مضمون دوہراتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی طریقہ تھا، بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( کبھی) کلام کو تین مرتبہ دوہراتے تھے تاکہ آپ کی بات اچھی طرح سمجھ لی جائے۔ حضرت والدصاحب بھی اس سنت پر عمل کرتے ہیں اس لئے دقیق علمی مضامین بھی قابل فہم بن جاتے ہیں۔
    دوم: دورانِ تقریر آپ لطائف وحکایات بیان فرماتے ہیں، جب لوگوں کے ذہن بوجھل ہوجاتے ہیں تو آپ فوراً کوئی ایسا واقعہ سناتے ہیں کہ لوگ ہنس پڑیں اور ذہن اگلی بات سننے کے لئے تازہ ہوجائے، مگر واقعات برائے واقعات نہیں ہوتے، ان سے بھی استدلال فرماتے ہیں، اس لئے لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔
     مگر خطابات کو جب کتابی شکل میں مرتب کیا گیا توتکرار حذف کردی گئی ، کیونکہ گفتگو میں تو یہ بات لطف دیتی ہے مگر تحریر میں بدمزگی پیدا کرتی ہے، البتہ واقعات باقی رکھے  گئےہیں، کیونکہ ان سے بیان میں استدلال کیا گیا ہے، اس طرح بیانات کتابی شکل میں بھی لطف سے خالی نہیں.

  جن عنوانات کے تحت مضامین لئے گئے  ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
خطبہ مسنونہ کے مضامین
قرآن کریم متقیوں کے لیے راہ نما کتاب ہے
 روزے اور زکوٰة کے ضروری مسائل
 روزوں کے تعلق سے رمضان کی تخصیص
 نماز عید سے پہلے خطاب
 ختم نبوت کا بیان
 عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول ہیں
 دنیا کی زندگی کس مقصد کے لیے ہے
 آگ والے اور باغ والے یکساں نہیں
زندگیوں کو راحت و سکون کیسے نصیب ہو
سورہ فاتحہ کی تفسیر
جھگڑا کھڑا کرنے والی چھ باتیں
مودودی جماعت کی پانچ گمراہیاں
دس دن میں قرآن ختم کرنا کیسا ہے؟
چاند کے بارے میں

اب تک کے مہربانان کرام