Wednesday, September 21, 2011

فتاوی رحیمیہ نئی ترتیب و تعلیق کے ساتھ منظر عام پر

  گجرات کے مایۂ نازمفتی حضرت مولانا حافظ قاری مفتی سید عبد الرحیم صاحب قادری، لاجپوری ثم راندیری قدس سرہ کا فتاوی رحیمیہ نہایت مقبول ومعتبر اور عام فہم فتاوی کا مجموعہ ہے،ہندوپاک کے چند اکابر ین کے تأثرات ملاحظہ فرمائیں:
   1: حضرت مولاناسید محمد میاں صاحب سابق شیخ الحدیث ومفتی اعظم مدرسہ امینیہ دہلی قدس سرہ فتاوی رحیمیہ کے بارے میں ارقام فرماتے ہیں: اگر احقر کی تصدیق کوئی وزن رکھتی ہے تو احقر ان تمام فتاوی کی تصدیق کرتا ہے، بعض جوابات کچھ طویل ہیں، بعض نے مضمون یا رسالہ کی صورت اختیار کرلی ہے، مگر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ پوری تحقیق سے لکھا گیا ہے۔
 2: دار العلوم دیوبندکے صدر مفتی حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں: فتاوی رحیمیہ عوام ہی کے لیے نہیں بلکہ اہل علم کے لیے بھی بغیر محنت کے مفید ہے الحاصل فتاوی رحیمیہ ہر اعتبار سے قابلِ اعتبار ہے۔
 3 : حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب مفتی  دار العلوم دیوبندنور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں: حضرت موصوف کے فتاوی  بڑے مدلل اور بڑے محققانہ  ہوتے ہیں اور مسلک حق کے صحیح ترجمان ہوتے ہیں، اور خواص وعوام سب کے لیے یکساں اور بے حد نافع ہوتے ہیں۔ 
  4: حضرت مولانامحمد منظور نعمانی سابق رکن مجلس شوری دار العلوم دیوبندرحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں: فتاوی کا کوئی اور مجموعہ میرے علم میں نہیں جس میں ہر مسئلہ اور ہر فتوے کو اس کے حق کے مطابق مدلل کیا گیا ہو۔
  5: مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی صاحب ندوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: جن لوگوں کو اس راہ کی مشکلات کا علم اور فقہ حنفی سے کامل مناسبت ہے وہ'' فتاوی رحیمیہ'' کی علمی وعملی قدر وقیمت کا اندازہ کرسکتے ہیں، اور اس کی شہادت دے سکتے ہیں کہ مؤلف فاضل کو اللہ تعالیٰ نے ان صلاحیتوں سے بہرہ ور فرمایا ہے جو اس دور میں اس نازک فریضہ کو انجام دینے کے لئے شرط ِ اول ہے۔
6 حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبنددامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں:'' فتاوی رحیمیہ'' میں عام مسلمانوں ہی کے لیے سامانِ تسلی نہیں ہے، بلکہ دریائے علم وفن کے شناوروں کے لیے بھی غیر معمولی غذا ہے، ہر فتوی علم وتحقیق کی داد طلب کرتا ہے اور قاری دعائیں دینے پر مجبور ہے، درحقیقت کامیاب مفتی وہ ہے جس کے فتوے سے لوگوں کو اطمینان نصیب ہو، کسی قسم کی تشنگی باقی نہ رہے، مجھے اس بات کے اظہار میں ذرا بھی تأمل نہیں ہے کہ فتاوی رحیمیہ کا ہر فتوی تسلی بخش اور پیاس بجھانے والا ہے۔
  7:  دارالعلوم ندوة العلماء کے استاذ تفسیر وحدیث حضرت مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی  رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: راقم ان فتاوی کو خدا تعالیٰ کی صفت'' رحمت'' کا خاص مظہر اور عہدِ حاضر کا بہت ہی قیمتی علمی فقہی سرمایہ سمجھتا ہے، بلکہ یہ بھی خیال کرتا ہے کہ اب تک فتاوی کے نام سے جو مجموعے اردو میں سامنے آئے ہیں ان میں یہ مجموعی طور سے اہل علم کے لیے خاص طور پر سب سے زیادہ نافع ہے، اور آسودگی کا سامان رکھتا ہے، راقم کا یہ بھی احساس ہے کہ اس مجموعہ میں جو عالی مضامین اور انیق تحقیقات ودیعت ہوگئی ہیں ان کے بیان کے لیے  لفظ'' فتاوی'' ناکافی بلکہ حجاب بن گیا ہے کیونکہ تعبیر سے اصل حقیقت کا پورا اظہار نہیں ہوپاتا۔
  8 :  پاکستان کے جید عالم حضرت مولانا زوّار حسین صاحب نقشبندی مجددی تحریر فرماتے ہیں: فتاوی رحیمیہ کے مطالعہ سے بڑی تسکین اور انشراح حاصل ہوتا ہے۔ 
  9: سیالکوٹ( پاکستان) کے مشہور خطیب حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: صرف موجودہ یا اردو ذخیرئہ فتاوی ہی نہیں بلکہ تاریخ فتاوی میں '' فتاوی رحیمیہ'' دلائل وبراہین، تفصیل واعجاز کے اعتبار سے منفرد امتیازی عظمت وشان کا حامل ہے۔
   یہ ہندوپاک کے چند اکابرین کی تقریظات کے اقتباسات ہیں، ان سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ علماء کرام کی نظر میں فتاوی رحیمیہ کی کتنی قدر ومنزلت ہے؟ ان اکابرین کرام کی تقریظات نیز ان کے علاوہ دیگر بزرگانِ دین کی تقریظات آپ دیکھنا چاہیں تو فتاوی رحیمیہ کی جلد اول کے آغاز میں دیکھ سکتے ہیں۔
  حاصل کلام یہ کہ فتاوی رحیمیہ علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی نظر میں نہایت معتبر ومستند اور عوام کی نگاہ میں بہت مقبول اور عام فہم فتاوی کا مجموعہ ہے، لیکن فتاوی کا یہ مجموعہ حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کی حیات میں دس جلدوں میں قسط وار شائع ہوا تھا اس لیے ایک ہی باب کے مسائل مختلف جلدوں میں بکھرے ہوئے تھے، جس کی بنا پر ناظرین کو مطلوبہ مسئلہ تلاش کرنے میں دشواری پیش آتی تھی، اور ناظرینِ کرام کا اصرار تھا کہ اس کو ازسر نو مرتب کیا جائے۔
  اللہ تعالیٰ نے حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبند دامت برکاتہم کے دل میں  اس کو از سر نو مرتب کرنے کا داعیہ پیدا فرمایا، چنانچہ حضرت الاستاذ نے فتاوی کے اس مجموعہ کو نئی ترتیب سے مزین فرمایا، مگر حضرت الاستاذ اپنی گوناگوں مصروفیتوں کی وجہ سے اتنے بڑے مجموعہ کی کتابت کی تصحیح کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے تھے، اس لئے حضرت الاستاذ زید مجدہم نے یہ کام احقر کے سپرد کیا، احقر نے محض اللہ کے فضل وکرم سے تین سال کے عرصہ میں کتابت کی تصحیح کا کام مکمل کیا۔ احقر نے صرف رسمی تصحیح پر اکتفا نہیں کی، بلکہ تصحیح کے دوران احقر کو جہاں اشکال ہوا اصل مراجع کی طرف رجوع کرکے عربی عبارتوں کو درست کیا، اور علامات ترقیم سے کتا ب کو مزین کیا ہے۔ 
اس ترتیب جدید میں برادر محترم حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت فیوضہم اورا حقر نے جو کام کیا ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1)            ایک ہی باب کے مسائل جو مختلف جلدوں میں منتشر تھے ان کو یکجا کیا گیا ہے۔
(2)بعض جگہ عناوین مختصر یا مبہم تھے، ہم نے ان عناوین کو واضح کیا ہے تاکہ ناظرینِ کرام عنوان پڑھ کر مسئلہ کی حقیقت جان لیں۔         
(3)            ایک ہی طرح کے مسائل پہلے چونکہ مختلف جلدوں میں تھے؛ اس لیے ان پر ملتے جلتے عناوین لگائے گئے تھے، اس ترتیب جدید میں ایک عنوان باقی رکھا گیا ہے، باقی کو حذف کردیا گیا ہے اور ایک ہی طرح کے مسائل ایک ہی عنوان کے تحت رکھے گئے ہیں۔
(4)            بعض مسائل بلاعنوان تھے ان کو کسی عنوان کے تحت رکھا گیا ہے یا ان پر عناوین لگائے گئے ہیں۔
(5)            فتاوی رحیمیہ کے جس جواب پر اشکال ہے اس کو اس ترتیب ِ جدید میں پہلے رکھا گیا ہے، اس کے بعد اس سوال وجواب کو رکھا گیا ہے جس میں اشکال کا جواب ہے تاکہ ناظرین کرام کو قابل اشکال جواب تلاش کرنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔
(6)            جن جوابات میں مفتی صاحب قدس سرہ نے اپنے مطبوعہ فتوے کا حوالہ دیا ہے حاشیہ میں یا بین القوسین اس کی نشاندہی کی گئی ہے کہ وہ فتوی اس ترتیب ِ جدید میں کہاں ہے۔
(7)            قدیم جلدوں میں ہر سوال کے شروع میں جو سلسلہ وار نمبرات تھے ان کو حذف کرکے موجودہ ترتیب کے لحاظ سے سلسلہ وار نمبرات لگائے گئے ہیں۔
(8)            ہر جواب کے آخر میں قدیم جلدوں کا مع صفحات حوالہ درج کیا گیا ہے تاکہ کوئی صاحب اصل سے ملانا چاہیں تو دشواری پیش نہ آئے۔
(9)            مفتی صاحب قدس سرہ کے بعض فتاوی بہت طویل ہیں، ان فتاوی میں جو ذیلی عناوین تھے ان کو اس ترتیب جدید میں مستقل سطر میں دائیں طرف اور ہر فتوے پر جو عنوان تھا اس کو درمیان سطر میں رکھا گیا ہے تاکہ ناظرینِ کرام جان لیں کہ کونسا عنوان مستقل ہے اور کونسا عنوان ذیلی ہے۔
(10)        اس ترتیب ِ جدید کی خصوصیت یہ ہے کہ بعض مسائل پر حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبنددامت برکاتہم نے قیمتی حواشی ارقام فرمائے ہیں جو قابل دید ہیں۔

محمد امین پالن پوری                                                                                                   
خادم حدیث وفقہ ومرتب فتاوی دار العلوم دیوبند                   
٣ شعبان سنہ ١٤٣١ھ مطابق ١٦ جولائی سنہ ٢٠١٠ء                                            
بروز جمعہ                       
        فتاوی رحیمیہ کی ترتیب ِ جدید

حضرت اقدس مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری ثم راندیری قدس سرہ کے ساتھ راقم الحروف کی طویل رفاقت رہی ہے۔ حضرت مفتی صاحب ضلع سورت کی جمعیة العلماء کے صدر تھے اور میں ناظم اعلیٰ۔ اس تعلق سے میرا حضرت سے بار بار ملنا ہوتاتھا۔
    پھر جب میں راندیر سے دار العلوم دیوبندمنتقل ہوگیا تو فتاوی رحیمیہ کی تصحیح وطباعت کا کام مفتی صاحب نے مجھے سپرد کردیا۔ پہلے یہ کام حضرت مولانا محمد میاں صاحب دہلوی قدس سرہ انجام دیتے تھے، آپ مدرسہ امینیہ دہلی کے شیخ الحدیث اور مفتی تھے۔ فتاوی رحیمیہ کی پہلی دو جلدیں ان کی تصحیح اور نگرانی میں طبع ہوئی ہیں، آپ فتاوی کی نوک پلک درست کرتے تھے، کتابت کرواتے تھے اور تصحیح( پروف ریڈنگ) کرتے تھے۔ اس طرح دو جلدیں مولانا موصوف کی نگرانی میں طبع ہوئیں،  پھر جب آپ کا پیمانۂ حیات لبریز ہوگیا تو مفتی صاحب نے یہ خدمت مجھے سپرد کی۔ باقی آٹھ جلدیں میری نگرانی اور تصحیح سے طبع ہوئی ہیں۔ آخر ی جلدوں میں میرے ساتھ میرے برادر عزیز جناب مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری بھی شریک رہے ہیں۔
  چونکہ فتاوی رحیمیہ چار مراحل میں طبع ہوا تھا:
    ١ـپہلے اس کی دو جلدیں گجراتی میں طبع ہوئیں تھیں۔ پھر ان کا اردو ترجمہ کرکے حضرت مولانا محمد میاں صاحب رحمہ اللہ کی تصحیح کے ساتھ طبع ہوئیں۔
   ٢ـ پھر جب اور مواد اکٹھا ہوا تو صرف تیسری جلد اردو سے براہ راست طبع ہوئی۔
   ٣ـ پھر عرصہ کے بعد جلد ٤ تا٦ طبع ہوئیں۔
      ٤ـ پھر جلد ٧ تا١٠ طبع ہوئیں۔
       اور ہر مرحلہ کی جلدوں میں تمام ابواب فقہیہ شامل تھے، ا س طرح ابواب منتشر ہوگئے۔ میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے بار بار عرض کرتا تھا کہ اب اس کی ترتیب جدید ہونی چاہئے۔ مفتی صاحب فرماتے تھے: ہوسکتا ہے ابھی اور جلدیں آئیں، اس لیے میرے مرنے کے بعد ترتیب دینا۔ اس طرح وقت گذرتا رہا اور مفتی صاحب کمزور سے کمزورتر  ہوتے گئے۔ چونکہ دیوبند میں فتاوی رحیمیہ کا میں ہی واحد اسٹاکسٹ تھا، اس لیے لوگ مجھ ہی سے ترتیب جدید کا مطالبہ کرتے تھے، اور میں لوگوں کا مطالبہ مفتی صاحب تک پہنچاتا تھا۔
  پھر مفتی صاحب رحمہ اللہ کی حیات ہی میں ایک فاضل ( مفتی عبد القیوم راجکوٹی صاحب) نے تمام جلدوں کی فہرست مرتب کی، جس کو مفتی صاحب نے شائع کیا، وہ سیٹ کے ساتھ دی جاتی تھی، اس طرح لوگوں کا تقاضا کچھ کم ہوا، اور قارئین کو ایک'' کلید'' میسر آئی جس سے کام چلتا رہا۔
  پھر ایسا ہوا کہ پاکستان کے کچھ احباب نے فتاوی کی ترتیب کی اجازت چاہی۔ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں مجھ سے مشورہ کیا۔ مفتی صاحب درحقیقت چاہتے یہ تھے کہ فتاوی کی ترتیب میں دوں، مگر میں اپنی تعلیمی اور تدریسی مشغولیت کی وجہ سے یہ کام انجام نہ دے سکا تو میں نے مفتی صاحب کو مشورہ دیا کہ پاکستان والوں کو اجازت دیدیں ، مگر حقوق نہ دیں، کیونکہ ممکن ہے پاکستان کی ترتیب آپ کے حسب منشاء نہ ہو اور از سر نو ترتیب دینی پڑے۔ چنانچہ مفتی صاحب نے جو خط مفتی محمد صالح کے نام ارقام فرمایا ہے اور جو پاکستان کے دارالاشاعت کے ایڈیشن میں شائع بھی ہوچکا ہے، اس میں صرف ترتیب ِ جدید کی اجازت دی ہے اور یہ ہدایت فرمائی ہے کہ مکرر فتوی بھی حذف نہ کیا جائے، اس میں حقوق دینے کی کوئی صراحت نہیں۔ اور حقوق فروخت کرنے کا مفتی صاحب کا مزاج بھی نہیں تھا۔ البتہ حقوق محفوظ رکھنے کے قائل تھے، میں نے اس سلسلہ میں ایک مرتبہ آپ سے عرض کیا کہ آپ ہر جلد پر '' حقوق محفوظ ہیں'' کیوں لکھواتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس لئے لکھواتا ہوں کہ معاملہ ہاتھ سے نکل نہ جائے، ناشرین نہ جانیں کیا کاٹ چھانٹ کریں، تصحیح کا اہتمام کریں یا نہ کریں اور کتاب بگاڑ دیں، اس لیے چاہتا ہوں کہ جو شائع کرے میری اجازت سے اور میری نگرانی میں شائع کرے، تاکہ کتاب کی افادیت متأثر نہ ہو۔
 پھر جب پاکستان کی اشاعت سامنے آئی تو اس میں چند کمیاں محسوس کی گئیں:
   ١ـ تصحیح( پروف ریڈنگ) کی کمی۔ ایسی غلطیاں کتاب میں بے شمار ہیں۔
   ٢ـ تکرار کا پایا جانا۔ مثلاً شروع میں تقریظات میں البعث السلامیکا تبصرہ مکرر ہے۔
  ٣ـ بے ضرورت حواشی کا اضافہ۔ حضرت مفتی صاحب کے فتاوی میں ذرا کمی نہیں ہے، البتہ کہیں اطناب محسوس ہوتا ہے پھر خواہ مخواہ حاشیہ میں عربی عبارتیں نقل کرنا: بے ضرورت عمل معلوم ہوتا ہے۔ اور آج کل یہ فیشن چل پڑا ہے۔ اکابرکی کوئی بھی کتاب لے کر اصاغر تخریج وتعلیق کرتے ہیں اور بے ضرورت مور سے دُم بڑھادیتے ہیں، بلکہ ان کے حواشی بعض جگہ: '' من چہ سرایم وطنبورئہ من چہ سراید'' کا مصداق ہوتے ہیں، اور اس کی تازہ مثال فتاوی محمودیہ کی تعلیقات ہیں جو پاکستان سے شائع ہوئی ہیں اور اب ہندوستان سے بھی ایسی ہی تعلیقات کے ساتھ کتاب شائع ہوئی ہے۔ حالانکہ مفتی محمود صاحب قدس سرہ کا فتوی ہی نص ہے، وہ کسی حاشیہ کا محتاج نہیں، اور ممکن ہے محشی نے جو حاشیہ بڑھایا ہے وہ فتوی لکھتے وقت مفتی صاحب کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہو۔
    ہاں اجمال کی تفصیل کرنے میں، کسی جگہ تسامح ہے تو اس پر تنبیہ کرنے میں ،یا عربی عبارت بے حوالہ ہے تو حوالبڑھانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ کام ضروری ہے، مگر مفتی کے فتوی کی بنیادیں فراہم کرنا اور وہ بھی مبتدیوں  کی طرف سے: عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ اکثر جگہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حاشیہ نگار کی اس بنیاد تک پہنچ ہی نہیں  ہوئی: جس بنیاد پر مفتی نے فتوی لکھا ہے۔ پھر  ضِغْث علی ِبَّالَةیہ ہے کہ ان اصاغر پر جو حضرات نگران ہوتے ہیں وہ ان کے کام کو سرسری دیکھتے ہیں اور اشاعت کی اجازت دے دیتے ہیں۔ یہ ایک غلط طریقہ ہے جو تیزی سے چل پڑا ہے۔
   ٤ـ کتابت کا خفی ہونا۔ حضرت مفتی لاجپوری صاحب کو اس کا بڑا اہتمام تھا کہ کتابت جلی ہو، تاکہ حسن بھی پیدا ہو اور ہر عمر کے لوگ بے تکلف پڑھ سکیں۔ دارالاشاعت کے ایڈیشن کی کتابت ذرا خفی ہے۔
     ٥ـ بعض فتاوی کا اس کے موقعہ پر نہ ہونا۔ مثلاًمفتی صاحب کے بعض فتاوی پر کسی نے نقد کیا ہے، مفتی صاحب نے اس کا جواب دیا ہے، اس کو پہلے فتوی کے بعد متصلاً رکھنا چاہئے، مگر پاکستانی اشاعت میں اس کا التزام نہیں۔
     اس قسم کی اور بھی کمیاں محسوس کی گئیں، پھر بھی وہ ایک اچھا کام ہوگیا، مگر جب وہ کام ہندوستان پہنچا تو اس کی بعینہ اشاعت مناسب نہیں سمجھی گئی۔ سابقہ غیر مرتب فتاوی ہی یہاں شائع ہوتے رہے۔
  حضرت مفتی صاحب قدس سرہ اپنے فتاوی خود شائع کرتے تھے، اور دیوبند میں ان کا تجارتی نمائندہ میں تھا۔ اور مفتی صاحب کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی، ان کی وفات کے بعد کاروبار ان کے بھتیجے نے سنبھالا، مگر کام ان کے قابو میں نہیں آیا، کبھی کوئی جلد کبھی دوسری جلد ختم ہوجاتی تھی، جس سے سیٹ ٹوٹ جاتا تھا اور فروختگی میں دشواری پیش آتی تھی۔
    جب یہ سلسلہ دراز ہوا تو مفتی صاحب کے بھتیجے نے مجھے اجازت دی کہ آپ ہی فتاوی شائع کریں، پلیٹیں گھس چکی تھیں اور جو جلدیں عکسی چھپتی تھیں ان کی فلمیں بھی لیتھو کی طباعت سے بنائی گئی تھیں: اس لئے صاف نہیں تھیں۔ چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ فتاوی کو مرتب کروں اور دیدہ زیب کتابت کراؤں۔ کام شروع کیا، مگر میرے علمی مشاغل سد ّ راہ بنتے رہے، چنانچہ میں نے معذرت کی کہ یہ کام میرے بس کا نہیں۔ انھوں نے میرے بھائی جناب مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری( استاذ دار العلوم دیوبند) سے گفتگو کی وہ تیار ہوگئے، ان کو فتاوی دار العلوم دیوبند( جلد ١٣ تا١٥) کی ترتیب کا تجربہ تھا، آگے بھی کام ان کی نگرانی میں جاری ہے۔ چنانچہ میں نے پوری کتاب کی ترتیب دی اور ان کے حوالے کی، انھوں نے کتابت وتصحیح کے مراحل سے کتاب کو گذار کر قابل اشاعت بنایا اور دو چار جگہ انھوں نے ضرورت محسوس کی تو میں نے وہاں حواشی لکھے، باقی پوری کتاب حرف ِ آخر ہے، کسی جگہ حاشیہ کی ضرورت نہیں، مجھے امید ہے کہ اگر آج حضرت مفتی صاحب قدس سرہ حیات ہوتے تو فتاوی کی ترتیب ِ جدید اور تزئین سے خوش ہوتے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کی بال بال مغفرت فرمائیں اور ان کے ان عظیم کارنامہ کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائیں( آمین)
حررہ :                                                                                     
سعید احمد عفا اللہ عنہ پالن پوری                                                  
خادم دار العلوم دیوبند١٠شعبان١٤٣١ھ  
کتاب منگوانی ہو تو سر ورق پہ موجود رابطہ پہ کلک کیجئے

2 comments: